کلامِ پاک کا اختیار

جِس کتاب نے تاریخ تبدیل کر دی ہے:

یہ انقلابی ادب ہے۔ اِس نے حکومتوں کے تختے پلٹنے کی راہنمائی دی۔ سمندر پار اجتماعی نقل مکانی کو جنم دیا اور سب سے بڑھ کر اِس نے تاریخ کو ہی بدل دیا۔ حکومتیں، سولہویں صدی انگریز حکومت تا سویت یونین کی کیمونسٹ حکومت تک، اِس کی اشاعت اور تقسیم کی ممانت بلکہ روک تھام کے لئے بہت وسیع سطح تک کوشش کرتی رہیں ، تاہم اِس نے اپنے دشمنوں پر فتح پائی ۔ یہ آج تک شائع ہونے والی کتابوں میں سب سے اہم ترین ہے۔ کسی بھی دوسری کتاب کا بہت سی مختلف زبانوں میں ترجمہ نہیں ہوا اور صرف چند کا اثر اُن زبانوں کے فروغ پر ہوا۔

یہ بے شک بائبل ہے جِس کے حِصّہ جات دُنیا کی 5,000 زبانوں میں سے 2,000 زبانوں متراجم ہو چکے ہیں ۔ اِس میں 318 وہ زبانیں شامل ہیں جِن میں مکمل بائبل کا ترجمہ موجود ہے ، کوئی بھی دوسری کتاب اِس تعداد کے قریب ترین بھی نہیں ہے۔ 303 عیسوی میں رومی شہنشاہ Diocletanنے مسیحیوں اور اُن کی مُقّدس کتاب کو تباہ کرنے کا فرمان جاری کیا۔ ایک شاہی سندیسہ ہر طرف بھیجا گیا۔ اِس بات کا فرمان دیتے ہوئے کہ کلیسیاوں نیست کیا جائے۔ کلام کے صحیفےتباہ کئے جائیں اور اِس بات کا اعلان کیا گیا کہ وہ لوگ جو اعلی دَرجوں پر مُرتب ہیں وہ اپنے قانونی حقوق سے دستبردار ہوںجبکہ جو گھروں کے مالک ہیں ۔ اگر وہ اپنے مسیحی شعبہ جات پر قائم ہیں وہ اپنی آزادی سے محروم ہو جائیں گے۔ اِس فرمان کی تاریخ کو توڑ کر بائبل کو تباہ کر دیاجائے یہ تھاکہ کانسٹائن Diocletan کے بعد آنے والا شہنشاہ ، نے 25 سال بعد Eusebiusکو حکومتی اخراجات پر کلام پاک کی 50کاپیاں بنانے کے لئے مقرر کیا۔

والٹیئر(Voltaire) ایک فرانسیسی لامذہب جو 1778ءمیں مر گیا ،نے کہا کہ اُس کے وقت سے لے کر ایک سو سال کے اندر اندر مسیحیت کا وجود نہ رہے گا اور وہ تاریخ کا حِصّہ بن کر رہ جائے گی۔ مگر کیا ہوا؟ والٹیئر خود تاریخ کا حِصّہ بن کر رہ گیا، جبکہ بائبل کی گردش تقریباًَ دُنیاکے تمام حِصّوں میں جاری رہی۔ تمام برکات کے ساتھ جہاں جہاں یہ پہنچتی ہے ۔ بائبل کی اشاعت کو روکنے کی کوشش کرنا شاید ہمارے لئے سورج کو اُس کی شدّت سے روکنے کے مترادف ہے۔ مسیحیت کی اور بائبل کی 100سال میں تباہی کے متعلق والٹیئر کی خود ثنائی کے حوالے سے اُس کی موت کے صرف 50 سال بعد جینوا بائبل سوسائٹی نے اُسی کی پریس اور گھر کو بائبل کی اشاعت کے لئے استعمال کیا۔۔۔ تاریخ کا ایک اورطمانچہ! خدا کے کلام کا استعمال ایک مستقل جنگ رہی ہے جِس کی بنیاد دُنیا اور شیطان کے فضول فلسفے ہیں ۔ کیمونسٹ چین اور سویت یونین میں بائبل رکھنا قانوناً جُرم تھا۔ بائبل کے ذریعے اِستحصال کی حمایت بھی رومن کیتھولک کلیسیاء کی طرف سے ہوئی ۔ بیسویں صدی تک بائبل ویٹیکن کی ”ممنوع کُتب کی فہرست “ میں شامل تھی۔

یہ صرف اِس عظیم ترین کتاب کی لا فانیت کو ظاہر کرنا ہے اگر دُنیا میں موجود ہر بائبل تباہ کر دی جاتی تو عوامی کتب خانوں میں موجود کتابوں سے سوالات کو اکٹھا کر کے مکمل کتاب کی تشکیل ہو سکتی تھی۔ یہ مثال یہ ظاہر کرنے کے لئے پیش کی گئی ہے کہ دُنیا وی ادب میں بائبل کتنی زیادہ طلب کی گئی ہے۔

تاریخ دان فِلپ شیف (Philip Schaff ) بائبل کی قُدرت اور اِس کے اثرات کو اِس طرح بیان کرتا ہے کہ: ”اِس ناصرت کے یَسّوع نے ہتھیار اور پیسے کے بغیر سکندرِ اعظم ،قیصر، محمد ، اور نپولین سے زیادہ لاکھوں لوگوں کو فتح کیا۔ بغیرسائینس اور کُچھ سیکھنے کے۔ اُس نے باقی تمام سکالروں اور فلسفیوں کی نِسبت اِنسان اور قُدرت پر زیادہ روشنی ڈالی ہے۔ اُس نے زندگی کے ایسے الفاظ ادا کئے جو اِس سے قبل وآج تک کسی نے نہ کہے اور شاعروں اور خطیب کی پُہنچ سے کہیں آگے تک اثرات مُرتب کئے بنا ایک بھی فقرہ لکھنے کے۔ اُس نے بہت سے لکھاریوں کو متحرک کیا اور مزید وعظوں ،خطابوں ، گفت و شنید ، شمارہ جات ، علمِ فنون ، اور حمدیہ گیتوں کے لئے موضوعات قدیم اور جدید دور میں کسی بھی بڑی فوج کی نِسبت زیادہ فراہم کئے ہیں “۔

برنارڈ رام، ایک مسیحی وکیل ، تفصیلاً بیان کرتا ہے کہ ” یہاں ضمیماتی مطالعہ جات میں کُچھ پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں جوکسی بھی سائینس یا انسانی علم کے ڈیپارٹمنٹ میں ناہموارسمجھی جاتی ہیں 95ء عیسوی تا جدید وقت کے دورانیہ میں پائے جانے والے اپاسٹلک فادرز میں ایک ایسا بڑا سمندر ہے جو بائبل سے متاثر ہے۔ یعنی بائبل کی لُغات بائبل کے اِنسائیکلوپِیڈیا، بائبل کے فرہنگ، بائبل کے نقشہ جات ، اور بائبل کا حدود اربعہ وغیرہ اِن کو ابتداءکے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے ۔ پھریکساں طور پر ہم الٰہیات مذہبی تعلیم، حمدیہ نظمیں ، تبلیغ ، بائبل کی زبانوں ، کلیسیائی تاریخ ، مذہبی سوانح ، مذہبی کام ، تفسیرات، مذہبی فلسفوں، گواہیوں وغیرہ وغیرہ کا وسیع ضمیمہ پیش کر سکتے ہیں ۔ یہ لا تعداد میں مِل سکتے ہیں
۔ Kenneth Scott Latourette اپنی کتاب” (History of Christianity) مسیحیت کی تاریخ “میں نتائج اخذ کرتا ہے کہ:” یہ اُس کی اہمیت کا ثبوت ہے تاریخ پراُس کے اثرات کا ثبوت ، اُس کی انوکھی ہستی کا ثبوت کہ اِس سیا رے پربسنے والے لوگوں میں سے کوئی بھی لوگوں اور زبانوں میں اِس حد تک ا دب کے شمارے کے تاثرات نہ دے سکا اور یہ کہ انحطاط سے بہت پہلے یہ سیلاب پہاڑتک جاری رہتا ہے۔

جِس کتاب نے اپنے حریفوں کو خطرات سے محفوظ کیا: بائبل اپنی حفاظت میں نادر ہے۔ یہ اِس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ بائبل سچ نہیں ہے مگر یہ اِس بات کو ثابت کرتی ہے کہ بائبل باقی کُتب میں تنہا حیثیت رکھتی ہے۔ ایک سچائی کے متلاشی طالبِ علم کو اِن خصوصیات والی کتاب کواستعمال کرنا چاہیئے۔ مختلف افراد کی بائبل میں دلچسپی نے اکثر اوقات تاریخ کا رُخ بدل دیا ہے۔ ثقافتی تاریخدان یا ورڈ یونیورسٹی کے ڈیوڈ پال نے یہ بیان دیا کہ ” یورپ اور امریکہ کی روحانیت کی تاریخ بائبل کی اشاعت اور فروغ کے ساتھ منطبق ہوتی ہے۔ چودھویں صدی کے کاہن John Wycliffeکے بائبل کے ترجمہ نے انگلستان کے سیاسی ڈھانچہ کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اُس نے نہ صرف کلیسیاءکی اصلاح کی بنیاد ڈالی بلکہ ریاست کی بھی۔ Wycliffe نے عام لوگوں کے لئے نئے عہد نامے کو Saxonکسانوں کی زبان میں ترجمہ کر کے متعارف کروایا۔ پندرھویں صدی سے قبل ہر انگریز شخص جو پڑھ سکتاتھا قانونی اور کلیسیائی سیاستدانوں کے حوالے سے کیتھولک کلیسیاءکی تعلیمات پر سوال اٹھانے کے قابل تھا۔Wycliffe کے پیروکاروں The Lollards کے متواتر خوف کی وجہ سے ، جنہوں نے انگریزی نئے عہد نامے کی تقسیم کی اور اُس کی تعلیم پائی۔ کیتھولک کلیسیاءنے 1408میں بائبل کے ترجمہ پر پابندی عائد کر دی۔ صرف وہی مسودے انگریزی میں جاری رہے جو Wycliffe کے اصل ہاتھوں سے لکھے گئے تھے۔ 1581 میں ولیم ٹائینڈل ( William Tyndale ) آکسفورڈ سکالر نے بائبل کا ترجمہ انگریزی میں کرنا شروع کیا۔ اُس نے یہ اِس لئے کیا کیونکہ وہ انگلستان کے لوگوں کو روحانی طور پر ناخواندہ دیکھ کر حیران تھا۔ ٹائینڈل نے مکمل بائبل کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور غیر قانونی طور پر انگلستان میں سمگل کیا۔ 1535میں وہ پکڑا گیا اور اُسے کاٹھ پر جلا دیا گیا۔ اُس کے آخری الفاظ یہ تھے کہ ” اے خدا وند! انگلستان کے بادشاہوں کی آنکھیں کھول!“ بائبل رکھنے کی آزادی شہیدوںکے خون کی فتح یابی کی بدولت ہے۔ پروٹیسٹنٹ اصلاحات ( Protestant Reformation ) کی بنیاد مارٹن لوتھر کی ” ایمانداروں کی عالمگیر کہانت“ کے متعلق تعلیمات تھیں کہ: ہر مسیحی خدا کے سامنے کاہن ہے اور وہ رُوح القُدّس کی مدد سے بائبل کی تشریح کرنے کے قابل ہے۔اِس کے جواب میں ہر مسیحی بائبل رکھنا چاہتا تھا او ر خدا کے ساتھ زیادہ موثر انداز میں شراکت رکھنے کے لئے پڑھنا سیکھنے کا ذمہ دار تھا۔ اِس تعلیم کے نتائج یہ تھے کہ کُچھ سکالر یہ مانتے تھے کہ یہ دُنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ خواندگی کی شرح تھی ۔ سوچیں 1525 میں شمالی جرمنی میں خواندہ آبادی صرف پانچ فی صد تھی۔ تا ہم 150سال بعد نئے انگلستان میں شرح خواندگی 95 فی صد تھی یہ بہت بڑی تبدیلی اُس پروٹسٹنٹ اصلاحات کا نتیجہ تھی جو شمالی یورپ کی مذہبی زندگی کو واضح کرنے کے لئے شروع ہوئی۔ آج امریکہ میں کلام پاک کو پڑھنے اور بائبل میں دلچسپی رکھنے کی نئی سرگر می پائی جاتی ہے۔ 1990 ایک Gallup Poll نے پایا کہ 1978میں 37 فی صد امریکی لوگوں کی تعداد 42 فی صد تک بڑھ چکی ہے جو بائبل کو خدا کا کلام سمجھتے ہیں ۔ اُن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ روزانہ بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو اِس سروے میں پائے جانے والے لوگوں میں سے 17فی صد لوگوں نے کہا کہ وہ کرتے ہیں ۔ 1990میں اُن لوگوں میں سے 21 فی صد لوگوں نے کہا کہ وہ بائبل کے مطالعیاتی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ نتائج اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ میں بائبل کی دلچسپی فروغ پا رہی ہے۔

مشرقی یورپ اور سویت یونین میں اشتراکیت کی شکستگی نے بائبل کی بے مثال بھوک کو جنم دیاچین میں حکومت کی طرف سے بڑھتی ہوئی پابندیوں نے چین کے لوگوں میں لاکھوں بائبلوں کی اشاعت کو جنم دیا۔ بائبل کے ناشران توقع رکھتے تھے کہ بائبل کی دلچسپی کا اگلا میدان کیوبا ہوگا کیونکہ وہ قوم اپنی آزادی کی دوبارہ تعمیر کر رہی تھی۔

خُدا کے کلام کا اختیار ” ابتدا میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا۔۔۔۔۔اور کلام مجسم ہو ا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا۔۔۔۔“ ( یوحنا 1باب 1 اور 14 آیت ) یَسُوع کو دیا گیا نام ” کلام “ تھا خُدا کے کلام کا اختیار اِس حقیقت سے اخز ہوتا ہے کہ یہ وہ گواہی ہے جو یَسُوع مسیح نے اپنے بارے میں دی کہ: ” ََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
َ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ خُدا کے کلام کا اختیاربائبل کی تاریخی صداقت کے مطالعہ سے نہیں آتی یعنی بائبل کے علم ِ تعمیرات کے مطالعہ سے تاکہ بائبل کی معقولیت ثابت ہو ۔ اور نہ ہی سائنس کے مطالعہ سے تاکہ پیدائش کے واقع کو ثابت کیا جا سکے۔ بلکہ ہم خُدا کے کلام کے اختیار پر اِس لئے ایمان رکھتے ہیں کیونکہ یہ یَسُوع مسیح نے دیا تھا۔ یہ ” پیش قیاس“ کہلاتی ہے۔ پیش قیاسی کی تعریف: خُدا کے کلام کا اختیارپیش قیاس کیا گیا تھا۔ اگر آپ نئے سِرے سے پیدا ہوئے ہیں ۔ آپ یَسُوع مسیح کی خُدا وندی اور خُدا کے کلام کے اختیار تلے ہیں بائبل آپ کی زندگی کے لئے اختیارکا اعلیٰ وسیلہ ہے خُدا کے کلام کا اختیار ہم سے نہیں ہوتا کہ ہم اِس کی سچائی کو ثابت کرنے کے اہل ہیں ۔ خُدا کے کلام کا اختیار اِس حقیقت سے آتا ہے کہ یہ خُدا کا کلام ہے ۔ خُدا نے یہ کہا تھا۔ یہ بر حق ہے۔ خُدا کے کلام کا پرچار اِس سچائی کا مکمل ثبوت ہے جِس کی ضرورت انسان کو نجات یافتہ بننے کے لئے ہے۔ہمیں انجیل کو اثر انگیز بنانے کے لئے”ثابت“ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خُدا کے کلام کا پرچار ایسا طاقتور اور مضبوط ہتھیارہے جو اِنسان کے دل کو چیرتا ہے۔ درحقیقت خُدا کے کلام کا پرچار ہی ہماری جنگ کے لئے واحد ہتھیار ہے۔ پیش قیاسی مکمل طور پر شہادت پسندی کی تردید نہیں کرتی۔ پولوس رسول نے ایتھنس میں ایک پیش قیاسی وعظ کی تبلیغ کی ( اعمال 17 باب23 تا 31 آیات ) مگر اُس نے یونانی فلسفوں سے چند گواہئیاں بھی پیش کیں کہ خُدا موجود ہے۔ تمام ادوار کے لئے انجیل کا پیغام یہ ہے کہ : ” ماضی میں تمام بے خبر تھے ! اب تُم انجیل سُن رہے ہو اور اب تُم توبہ اور ایمان لانے کے ذمہ دار ہو۔“

قُدرتی مکاشفہ میں پہلے سے سچائی کا خاصہ ثبوت موجود ہے۔ (رومیوں 1 باب 20 آیت)
مگر سچائی جِس کی تعلیم دی گئی۔ نہ کہ ثبوت کہ حقیقت سچ ہے۔ نجات کا واحد پیغام ہے ۔ ” بلکہ خُدا سچا ٹھہرےاور ہر ایک آدمی جھوٹا۔۔۔۔“
(رومیوں 3 باب4 آیت)

دو سوالی امتحان: درج ذیل خود کا دو سوالی امتحان ہے کہ یہ فیصلہ کیاجائے کہ آیا کہ آپ پیش قیاس پرست ہیں یا شہادت پسند ہیں ۔ 1۔ سچائی کا فیصلہ کرنے کے لئے آپ کا نقطہءآغاز کیا ہے ؟ الف۔ وہ ثبوت جو خُدا کے کلام کی سچائی کی حمایت کرتی ہے۔ ب ۔ صرف خُدا کا کلام ۔ 2۔ نجات یافتہ بننے کے لئے اِنسان کو کس چیز کی ضرورت ہے ؟
الف۔ اِنسان کواور زیادہ گواہی کی ضرورت ہے کہ وہ فیصلہ کر ے کہ سچ کیا ہے۔۔ اِنسان صرف اُس نجا ت کو قبول کر سکتا ہے۔ جب وہ سچائی کو سمجھتا ہے۔
ب ۔ اِنسان کو توبہ کرنےاور انجیل پرایمان لانے کی ضرورت ہے۔ ۔خُدا اِنسان کو سچائی کا علم دیتے ہوئے آزاد کرتاہے۔ سچائی ثبوت کی بدولت ظاہر نہیں ہوتی بلکہ کلام کے پرچار کی بدولت۔ اِنسان کا مسئلہیہ نہیں کہ اُسے علم کی کمی ہے اور اُسے مزید معلومات کی ضرورت ہے اُس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ گناہگار ہے اور اُسے توبہ کی ضرورت ہے۔

خُدا کے کلام کا اختیار بائبل کا اختیار اِس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اِسے ” خُدا کا کلام “ کہتے ہیں ۔ الہام وہ وسیلہ ہے جِس کی بدولت بائبل کو اِس کا اختیار ملتا ہے ۔ مخصوصیت وہ عمل ہے جِس کے باعث بائبل کی کتابوں کو اُن کی آخری قبولیت میسر آتی ہے۔ خُدا کے لوگوں نے صدیوں تک مخصوصیت کے عمل میں اہم کردارادا کیا ہے۔ اِس کردار کو پوراکرنے کے لئے اُنہیں الہی اختیار کے خاص نشانات کی تلاش کرنا پڑی ۔ ایک شخص اگر اُس نےیہ دیکھا ہے کسطرح ایک کتاب کو الہامی قرار دے سکتا ہے؟ وہ کون سی خصوصیات ہیں جو با لکل اِنسانی عمل سے الہی عمل میں امتیاز ظاہر کرتی ہیں؟ اِس شناختی عمل میں بہت سے شعبہ جات شامل ہیں۔

قانونیت دریافت کرنے کے اصول: جھوٹی کتابیں اور جھوٹی تصانیف قلیل نہ تھیں۔ اُن کے مستقل خطرات نے خُدا کےلوگوں کے لئے یہ لازمی قرار دے دیا کہ وہ اپنی
مُقّدس کتابوں کے اجتماع کو احتیاط کے ساتھ پر کھیں ۔ حتیٰ کہ اُن کتابوں پر جنہیں دوسرے ایمانداروں نےقبول کیا یا جو ابتدائی زمانے میں قابلِِ قبول تھیں بعد میں کلیسیاءنے اُن پر سوال اٹھایا۔ سارے مرحلے پر کام کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ چند بنیادی معیار کُل 5 تھے۔ 1۔ کیا کتاب مستند ہے ؟ کیا یہ خُدا کی کتاب ہونے کا دعوی ٰکرتی ہے ؟ 2۔ کیا یہ کتاب پیغمبرانہ ہے؟ کیا اِسے خُدا کے نبی نے لکھا ہے ؟ 3۔ کیا یہ کتاب قابلِ اعتبار ہے ؟ کیا یہ کتاب خُدا ، اِنسان وغیرہ کے متعلق حقیقت بیان کرتی ہے ؟ 4۔ کیا یہ کتاب الٰہی قوت سے بھرپور ہے ؟ کیا یہ زندگی تبدیل کرنے کی قوت رکھتی ہے ؟ 5۔ کیا یہ کتاب خُدا کے الہام سے لکھی گئی ثابت ہوئی ہے ؟
کیا یہ کتاب اُن لوگوں نے قبول کی یا حاصل کی ہے جِن کے لئے بنیادی طور پر یہ لکھی گئی ہے؟

ایک کتاب کا اختیار ” ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کے لئے فائدہ مند بھی ہے تا کہ مردِ کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے تیار ہو جائے۔“ ( 2تیمیتھیس 3 باب 16آیت ) ” کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی رُوح ا لقُدّ س کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے۔“ ( 2 پطرس 1 باب 21 آیت ) ” اپنے آپ کو خُدا کے سامنے مقبول اور ایسے کام کرنے والے کی طرح پیش کرنے کی کوشش کر جِس کو شرمندہ نہ ہونا پڑے اور جو حق کے کلام کو دُرستی کام میں لانا ہو۔“ ( 2تیمیتھیس2 باب 15 آیت ) بائبل کی ہر کتاب الٰہی اختیار کا دعویٰ کرتی ہے اکثر اوقات یہ بیان پیش کیا جاتا ہے۔ کہ ” خُداوند یوں فرماتا ہے “ بعض اوقات لہجہ اور نصیحت اِس کی بنیاد کو ظاہر کرتے ہیں ۔ یہاں ہمیشہ ایک الٰہی ہدایت ملتی ہے اِس کے معلمانہ ادب میں ”خُدا وند کے کلام “ کی فرمانبرداری کرنے کے لئے احکامات پائے جاتے ہیں ۔ تاریخی کُتب میں پندو نصاح پائی جاتی ہیں ” خُداوند کا مُستنِد کلام“ اِس کے متعلق ہے۔ جو خُدا نے تاریخ میں اپنے لوگوں کے لئے کیا۔ اگر کسی کتاب میں خُدا کے اختیار کی کمی ہے۔ یہ قانونی حیثیت نہیں رکھتی اور اُسے قانون نے رد کر دیا ہے۔ اختیار کےاِس اصول کی بدولت انبیاءکی کُتب کی با آسانی شناخت ہوئی ۔ بار ہا دہرائے گئے یہ الفاظ کہ ” خُدا نے مُجھے فرمایا “ یا
” خُدا کا کلام مُجھ پر ظاہر ہوا “ اِس کے الٰہی اختیار کے دعویٰ کی بہترین گواہی ہے ۔ چند کُتب الٰہی ہونے کےدعویٰ سے محروم تھیں اور وہ قانونی حیثیت سے بے دخل ہوئیں شائد یہی وجہ” Jasher “ اور ” خُداوند کی لڑائی کی کتاب“ کے رد ہونے کی تھی ۔ بعض کُتب پر ، جیسے کہ آستر ، پر سوال اٹھائے گئے مگر آخر کار اِنہیں قانون نے قبول کیا۔ جب تک ی سب پر ظاہر نہ ہوا کہ آستر کی کتاب میں بلا شبہ خُدا کا تحفظ اور روح لوگوں کے ساتھ تھا یہ کتاب یہودی قانون میں ایک مُستقل حیثیت رکھتی تھی جب تک ایماندار کسی بھی کتاب کے الٰہی اختیار کے قائل نہ ہوئے وہ کتاب ردہی سمجھی جاتی تھی۔

کسی کتاب کی پیغمبرانہ اصلیت: الیامی کُتب صرف اُن اشخاص کے وسیلہ سے آئیں جو رُوح القُدّس سے متحرک تھے اور جِنہیں انبیاءکی معرفت ملا۔ بائبل کا ہر ایک
لکھاری پیغمبرانہ صلاحیت کا مالک تھا ۔ چاہے وہ پیشہ وارانہ نبی نہ تھا ( عبرانیوں 1 باب 1 آیت) پولوس رسول نےاِس بات پر بحث کی کہ اُس کی کتاب کو قبول کیا جانا چاہیئے کیونکہ وہ بھی رسول تھا ۔ جو ” نہ اِنسانوں کے سبب سے نہ اِنسانوں کی جانب سے بلکہ خُداوند یَسُوع مسیح کے سبب سے “ ( گلتیوں 1باب 1آیت ) اُس کی کتاب قبول ہونی تھی کیونکہ یہ رسولی کتاب تھی۔ اُن کُتب کو رد کیا جاتا تھا جو خُدا کے انبیاءکی معرفت سے نہ تھیں جیسے کہ پولوس کی خبر داری سے ثابت ہوتا ہے کہ اُص کتاب کو ہر گز قبول نہ کیا جائے جو کسی چھوٹے رسول کی طرف سے ہو۔( 2 تھِسلُنیکیوں 2 باب 2آیت )اور 2 کرنتھیوں میں چھوٹے نبیوں کے بارے میں خبرداری سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے۔ چھوٹے مسیحاوں اور ارواح کے متعلق یوحنا کی خبرداری اِسی حِصّہ میں شامل ہوتی ہے (1یوحنا 2 باب18 تا19 آیات اور 4 باب1تا 3 آیات ) یہ اِس پیغمبرانہ اصو ل کی وجہ سے تھا جوابتدائی کلیسیاء2 پطرس میں بیان کیا۔ جب تک کلیسیاءکی کاہن اِس بات کے قائل نہ ہوئے کہ یہ کتاب جعلی دستاویز نہیں ہے۔ بلکہ یہ حقیقتاً پولوس رسول کی طرف سے ہے جِس کا دعویٰ کیا گیا ہے تب تک اِسے مسیحی قانون میں بنیادی حیثیت حاصل نہ ہوتی۔

کسی کتاب کی تصدیق: الہام کی ایک اور شناخت صداقت ہے۔ کوئی بھی کتاب جِس میں حقیقی یا عقیدوں کے متعلق غلطیاں پائی جائیں وہ خُدا کے الہام سے نہیں ہو سکتی۔ خُدا جھوٹ نہیں بول سکتا۔ اُس کا کلام صادق اور مستقل ہے۔ اِس تصدیقی اصو ل کی بدولت بہت سارا Apocrypha رد کر دیا گیا۔ اُن کے مُستنِد طریقہ کار کے باوجود اُن کی تاریخ غلطیوں اور الہٰیاتی غلطیوں نے اِسے یہ ثابت کرنے کے اہل کر دیا کہ وہ خُدا کی طرف سے تھیں ۔ اُن میں غلطیاں بھی تھیں اور یکساں طور پر وہ خُدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی تھیں ۔بالکل اِسی اصول کی بنیاد پر چند قانونی کتابوں پر بھی سوال اُٹھائے گئے ۔ اگر یعقوب کا خط پولوس کی اعمال کے بغیر ایمان مُردہ والی تعلیم کی مخالفت کرے تو کیا وہ الہامی ہو سکتا ہے ؟ جب تک یعقوب کے خط کی بنیادی اصلاح نہ دیکھی گئی۔ اُس پر سوال اُٹھتے رہے۔ چند ایک نے یہودہ کے خط پر اُس کی غیر مُستنِد تحریر کی بدولت سوال اُٹھائے ( یہودہ 9 باب 14 آیت) ایک بار جب یہ سمجھ لیا گیا کہ یہودہ کے مُستنِد ہونے پر کوئی سوال باقی نہیں رہا تو یہودہ کو مُستنِد قرار دے دیا گیا۔

کسی کتاب کی اصل فطرت کسی کتاب کی قانونیت کا چوتھا امتحان اُس کتاب کی زندگی تبدیل کرنے کی صلاحیت تھی۔ ” خُدا کا کلام زندہ اور متحرک ہے “
(عبرانیوں 4 باب آیت ) نتیجتاً یہ ” تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی کی تربیت“ کے لئے استعما ل ہو سکتا ہے ( 2تیمیتھیس3 باب 16 اور 17 آیت ) بائبل میں غیر ایمانداروں کو بدلنے اور ایمانداروں میں ایمان کو پختہ کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اَن گنت ہزاروں لوگوں نے اِس قُدرت کا تجربہ کیا ہے۔ اس کی بدولت منشیات کے عادی لوگوں نے نجات پائی ۔ لاوارث لوگ تبدیل ہوئے اِس کے مطالعہ سے نفرت محبت میں تبدیل ہو گئی۔ ایماندار اِس کے مطالعہ سے نشوو نما پاتے ہیں ( 1 پطرس 2 باب 2 آیت ) دکھی لوگ تسلی پاتے ہیں گناہگار توبہ کرتے اور ردکئے گئے قبولیت کا درجہ پاتے ہیں۔ خُدا کا کلام اپنے اندر خُدا کی بے مثال تبدیلی کی قُدرت رکھتا ہے خُدا بائبل کے اختیار کواِس کی تبدیلی کرنے والے صلاحیت کی بدولت ظاہر کرتا ہے۔ بائبل اشارہ کرتی ہے کہ خُدا کے کلام کا پرچار اُس کے فضل کا وہ وسیلہ ہے جو اُس نے گناہگاروں کو نجات کی جانب راغب کرنے کے لئے مہیا کیا ہے۔ ( رومیوں 10باب 14 آیت ) خُدا کا کلام ایماندار کی زندگی میں بھی مضبوطی عطا کرتا ہے۔
1۔ تقویت: کلام کے دودھ کا آرزومند ہونا اِس بات کی علامت ہے کہ آپ نئےسرے سے پیدا ہوئے ہیں۔ ” کیونکہ تُم فانی تخم سے نہیں بلکہ غیر فانی سے خُدا کے کلام کے وسیلہ سے جو زندہ اور قائم ہے ۔ نئے سرے سے پیدا ہوئے ہو۔چنانچہ ہر بشر گھاس کی مانند ہے اور اُس کی ساری شان و شوکت گھاس کے پھول کی مانند ۔ گھاس تو سوکھ جاتی ہے اور پھول گِر جاتا ہے لیکن خُدا وند کا کلام ابد تک قائم رہے گا۔ یہ وہی خوشخبری کا کلام ہے جوتمہیں سنایا گیا تھا۔ پس ہر طرح کی بد خواہی اور فریب اور ریاکاری اور حسد اور ہر طرح کی بد گوئی کو دور کر کے نو زادہ بچوں کی مانند خا لِص اور روحانی دودھ کے مُشتاق رہو تاکہ اُس کے ذریعے سے نجات حاصل کرنے کے لئے بڑھتے جاﺅ۔ اگر تُم نے خُدا وند کے مہر بان ہونے کا مزہ چکھا ہے۔( 1پطرس 1باب کی 23آیت، 2 باب کی 3 آیت) ”۔۔۔لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خُدا کے مُنہ سے نکلتی ہے ۔۔۔ یہ بھی لکھا ہے کہ تو خُدا وند اپنے خُدا کی آزمائش مت کر۔۔۔ یَسُوع نےاُس سے کہا کہ اے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تُو خُدا وند اپنے خُدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر۔ “ ( متّی 4 باب 7 اور 10آیت) ” میں اُس کے لبوں کے حُکم سے ہٹا نہیں جِس نے اُس کے مُنہ کی باتوں کو اَپنی ضروری خوراک سے بھی زیادہ ذخِیرہ کیا۔“ ( ایوب 23 باب 12آیت) ” تیرا کلام مِلا اور میں نے اُسے نوش کیا اور تیری باتیں میرے دل کی خُوشی اور خُرمی تھیں کیونکہ اے خُداوند ربالافواج !میں تیرے نام سے کہلاتا ہوں۔“ (یرمیا 15باب 16 آیت) ” اِس کے بارے میں ہمیںبہت سی باتیں کہنا ہیں جِن کاسمجھنا مُشکل ہے اِس لئے کہ تُم اونچا سننے لگے ہو ۔ وقت کے خیال سے تو تمہیں اُستاد ہونا چاہیے تھا۔مگر اب اِس بات کی حاجت ہے کہ کوئی شخص خُدا کے کلام کے ابتدائی اصول تُمہیں پھر سکھائے اور سخت غذا کی جگہ تمہیں دودھ پینے کی حاجت پڑ گئی۔کیونکہ دودھ پیتے ہوئے راستبازی کے کلام کا تجربہ نہیں ہوتا۔ اِس لئے کہ وہ بچہ ہے اور سخت غذا پوری عمر والوں کے لئے ہوتی ہے جِن کے حواس کا کرتے کرتے نیک و بد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز ہو گئے ہیں ۔
( عبرانیوں 5باب11تا14آیات)
2۔پاکیزگی: خُداکے کلام کا مطالعہ اُس فضل کا وسیلہ ہے جو خُدا نے ہماری تقدیس کے لئے ہمیں بخشا ہے۔۔۔ یعنی گناہ سے ہمارے دل اور دماغ کی پاکیزگی کے لئے۔ مسیح نے کلیسیاءسے محبت کر کے اپنے آپ کو اُس کے واسطے موت کے حوالہ کر دیا تاکہ اُس کو کلام کے ساتھ پانی سے غسل دے کر اور صاف کر کے مُقّدس بنائے۔ اور ایک ایسی جلال والی کلیسیاءبنا کر اَپنے پاس حاضر کر کے جِس کے بدن میں دماغ یا جھڑی یا کوئی اور چیز نہ ہو بلکہ پاک اور بے عیب ہو۔ ( افسیوں 5 باب26 اور 27 آیت ) ” لیکن کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں ۔ کیونکہ جو کوئی کلام کا سننے والا ہو۔ اور اُس پر عمل کرنے والا نہ ہو وہ اُس شخص کی مانند ہے جو اپنی قُدرتی صورت آئینے میں دیکھتا ہے۔ اِس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دیکھ کر چلا جاتا ہے اور فوراً بھول جاتا ہے کہ وہ کیسا تھا۔ (یعقوب 1باب22 تا 24 آیات) ” تو آو ہم سچے دِل اور پورے ایمان کے ساتھ اور دِل کے الزام کو دور کرنے کے لئے دِلوں پر چھینٹے لے کر اور بدن کو صاف پانی سے دُھلوا کر خُداکے پاس چلیں ۔“ ( عبرانیوں 10باب 22 آیت)
3۔عبادت عبادت اور جذبے میں ایک امتیاز کرنا پڑتا ہے عبادت وہ وقت ہے جو ہم خُدا کے کلام کا مطالعہ کرنے کے لئے مخصوص کرتے ہیں۔ جذبہ خُدا کےلئے ہے ۔ اور یہ خُدا کے ساتھ روزانہ کلامِ پاک پڑھنے کا سب سے بڑا موجب ہے۔ ” مبارک ہے وہ آدمی جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا اور خطا کاروں کی راہ میں کھڑا نہیں ہوتا۔ اور ٹھٹھا بازوں کی مجلس میں نہیں بیٹھتا بلکہ خُدا وند کی شریعت میں اُس کی خوشنودی ہے اور اُس کی شریعت پر دن رات اُس کا دھیان رہتا ہے۔ وہ اُس درخت کی مانند ہوگا جو پانی کی ندیوں کے پاس لگایا گیا ہوگا ۔ جو اپنے وقت پر پھلتا ہے اور جِس کا پتہ بھی نہیں مُرجھاتا سو جو کُچھ وہ کرے وہ بارور ہوگا۔ “
(زبور 1 باب 1تا3 آیات) ” میری آنکھیں رات کے ہر پہر سے پہلے کُھل گئیں تاکہ تیرے کلام پر دھیان کروں“ (زبور 119: 148) ” اے یروشیلم ! میں نے تیری دیواروں پر نگہبان مقرر کئے ہیں وہ دن رات کبھی خاموش نہ ہوں گے۔“ (یسعیاہ 62باب 6 آیت) ” میں اُسے قربت بخشوں گا اور وہ میرے نزدیک آئے گا کون ہے جِس نے یہ جُرات کی ہو کہ میرے پاس آئے۔ “ (یرمیا 30 باب21 آیت) ” تُم میرے ساتھ ایک گھڑی بھی نہ جاگ سکے ۔“ ( مّتی 26 باب40 آیت )
4۔ روحانی جنگ مسیحی زندگی روحانی جنگ کے مترادف ہے ۔ کلام کی طاقت اُس زندہ تلوار کی مانند ہے جِس کی بدولت ہم اِس جنگ میں فتح یاب ہوتے ہیں ۔ “ ” کیونکہ خُدا کا کلام زندہ اور موثر ہے اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ اور جان اور روح اور بند بند اور گو دے کو جدا کر کے گزر جاتا ہےاور دِل کے خیالوں اور ارادوں کو جانچتا ہے۔“ ( عبرانیوں 4 باب 12 اور 13 آیت) ” اس لیءکہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں ۔۔۔۔ جِس نے ہم کو نئے عہد کے خادم ہونے کے لائق بھی کیا۔ لفظوں کے خادم نہیں بلکہ روح کے کیونکہ لفظ مار ڈالتے ہیں مگر روح زندہ کرتی ہے ۔“ ( 2 کرنتھیوں 3 باب6 آیت اور 10باب 4 آیت) ” اور نجات کا خود اور روح کی تلوار جو خُدا کا کلام ہے لے لو۔“ ( افسیوں 6 باب 17آیت)

ایک کتاب کی قبولیت ایک مُستنِد کتاب کی آخری شناخت یہ ہے کہ خُدا کے اُن لوگوں میں اپنی پہچان رکھتی ہے جِن کے لئے بنیادی طور پر یہ تحریر کی گئی ہو۔ خُدا کا کلام اُس کے انبیاءکی معرفت اور جو سچائی کے ساتھ دیا گیا ہو۔ اُس کے لوگوں کے لئے پہچان رکھتا ہو۔ ایمانداروں کے بعد آنے والی نسلیں اِس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں ۔ کیونکہ اگر کوئی کتاب اُن لوگوں کو حاصل ہوئی اور جمع کی گئی اور پھر خُدا کے کام کے لئے اسعمال کی گئی تو اِس کی قانونی حیثیت قائم ہوئی تھی۔ زمانہ ءقدیم میں رابطے اور رسل و رسائل مُشکل تھے بعض اوقات کلیسیائی کاہنوں کو کسی کتاب کی تصدیق کرنے میں کافی وقت درکار ہوتا تھا۔ اِسی بِنا پر قانون کی 66 کتابوں کی شناخت کے لئے بہت بہت برس لگ گئے۔ موسٰی کی کُتب کو خُدا کے لوگوں نے فوراً قبول کر لیا۔ وہ مُستقبِل کی نسلوں کےلئے اکٹھی کی گئیں ۔ درج کی گئی محفوظ کی گئی اور اُنہیں مہیا کی گئیں۔ پولوس رسول کے خطوط کو اُن کلیسیاوں نے فوراً قبول کیا جِن کے لئے وہ لکھے گئے تھے چند ایک دستاویزات کو لوگوں نے فوراً رد کر دیا کیونکہ اُن میں الٰہی اختیار کی کمی تھی۔ ( 2 تھِسلُنِیکیوں 2 باب2 آیت) جھوٹے نبی (متّی 7 باب 21آیت) اور بُری روحوں کا تجزیہ کیا گیااور رد کر دیا گیا۔ (1یوحنا 4 باب 1تا 3 آیات) جیسا کہ بئبل میں ہی بُہت سے واقعات میں یہ ظاہر کیا گیا ہے
( یرمیاہ 5باب 2 آیت ؛ 14باب 14آیت) دیگر پیغامات اور کتب رد ہو گئیں کیونکہ اُن میں جھوٹی نسل یا جھوٹی اُمید پائی جاتی تھی۔ (1سلاطین 22 باب6تا 18آیات؛
( 2 تھِسلُنِیکیوں 2 باب2 آیت) لٰہذا وہ ایمانداروں کو مسیح کی سچائی میں تعمیر کرنے کے لئے موثر نہ تھے۔ یَسّوع نے کہا کہ ” تُم سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تُم کو آزاد کرے گی ۔ ( یوحنا 8 باب32 آیت) جھوٹ کبھی آزادی نہیں دے سکتا۔ صرف سچائی میں رہائی کی قوت پائی جاتی ہے۔ چند ایک بائبل کی کُتب پر جیسے کہ غزلالغزلات اور احبار سوال اُٹھائے گئے کیونکہ چند لوگ اِن میں اَصل تبدیلی کی قوت کی کمی دیکھتے تھے۔ ایک بار جب اُنہیں یقین ہو گیا کہ غزلات گہرے روحانی ہیں اور احبار مُثبت اور تبدیل کرنے والے ہیں پھر وہاںصرف تھوڑا سا ہی شک قانونیت پر باقی رہ گیا تھا۔یہ تقریباً غیر ضروری ہے کہ ہر کسی نے حتٰی کہ انبیاءکے پیغامات کی بھی پہلی بار ہی حمایت کر دی تھی۔ خُدا نے اپنے انبیاءکو اُن لوگوں کی خلاف شک سے آزاد کیا۔ جِنہوں نے اُنہیں رد کیا تھا (1سلاطین 22 باب1تا38 آیات ) اور اُس نے اپنے لوگوں کومقرر کیا جب Korah اور دیگر لوگوں نے موسیٰ کے اختیار کا مقابلہ کیا۔ زمین کھُل گئی اور اُن کو اپنے اندر نگل گئی ( گنتی 16باب) خُدا کے کلام کی تصدیق میں خُدا کے لوگوں کا کِردار فیصلہ کُن تھا۔خُدا نے قانون کی کُتب کی تصدیق کی تھی مگر خُدا کے لوگ یہ دریافت کرنے کے لئے بلائے گئے تھے کہ کون سی کتاب اختیاری ہے اور کون سی نہیں ہے۔ اُن کو اِس دریافت میں مدد دینے کے لئے قانونیت کے یہ 5 معیار تھے۔

قانونیت دریافت کرنے کا مرحلہ: جب ہم قانونیت کے مرحلے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں کلیسیائی کاہنوں کی ایک کمیٹی کا تصّور کتابوں ایک بڑے ڈھیر اور اِن پانچ راہنما اصولوں کے ساتھ اُن کے سامنے نہیں رکھنا چاہیے یہ مرحلہ کہیں زیادہ قُدرتی اور با عمل تھا۔ گو کہ ہر ایک الہامی تحریر میں تمام تر پانچ خصوصیات موجود ہیں ۔ ہر ایک قانونی کتاب کے متعلق فیصلے میں شناخت کے تمام پانچ اصول نمایاں نہیں ہیں ۔ خُدا کے ابتدائی لوگوں کے لئے یہ ہمیشہ ہی فوری طور پر نمایاں نہیں تھا کہ چند تاریخی کُتب ”باعمل“ یا ” با اختیار “ تھیں ۔ اُن کے لئے زیادہ ظاہری حقیقت یہ تھی کہ چند کُتب ” پیغمبرانہ “ اور ” مقبول“ تھیں۔ کوئی شخص با آسانی دیکھ سکتا ہے کہ فقرہ ” خُدا وند یوں فرماتا ہے“ نے اُن قانونی کتابوں کی شناخت میں اہم کِدار ادا کیا تھا جو خُدا کے تمام تر نجات کے منصوبے کہ پیش کرتی ہیں اِس کے باوجود بعض اوقات مخالفت سچ ہوتی ہے یعنی کہ کتاب کی قُدرت اور اختیار اِس کی اصل دستاویز کی نسبت زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔ ( مثلا عبرانیوں)کسی بھی واقعہ میں ہر قانونی کتاب کی دریافت میں تمام تر پانچ خصوصیات شامل ہوتی تھیں گو کہ چند ایک صرف ضمنی طور پر استعمال ہوئیں۔ اِس مرحلہ میں چند اصول منفی طور پر کام کرتے ہیں شناختی اصولوں میں سے چند ایک دوسروں کی نسبت زیادہ منفی طور پر کام کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر تصدیق کے اصول غیر قانونی کُتب کو بلا تعامل خارج کریں گے بہ نسبت قانونی کُتب کی طرف اشارہ کرنے کے ، جو قانونی ہیں وہاں کوئی جھوٹی تعلیم نہیں ہے مگر جو الہامی نہیں ہیں اُن میں بُہت ساری سچی تحریریں ہیں اِسی طرح بُہت سی کُتابیں جو بصیرت بخشتی ہیں یا جِن میں تحریک پائی جاتی ہے وہ قانونی نہیں ہیں ۔ جو کہ کوئی بھی قانونی کتاب خُدا کی نجات کے منصوبے سے مُبّرا نہیں ہے۔ بالکل اِسی طرح ایک کتاب الہامی نہ ہونے کے باوجود با اختیار ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ جسے کہ Apocryphal تحریروں میں سے چند ایک اشارہ کرتی ہیں مگر جب تک کوئی کتاب حقیقتا ًبا اختیار نہیں ہے۔وہ قانونی نہیں ہو سکتی۔ دوسرے الفاظ میں اگر کسی کتاب
میںاختیار کی کمی ہے وہ خُدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی۔ مگر صرف یہ حقیقت کہ ایک کتاب اختیار کا دعویٰ کرتی ہے اُسے الہامی نہیں بناتی قبولیت کے اصول کا بنیادی طور پر کام منفی ہے۔ حتیٰ کہ یہ حقیقت کہ ایک کتاب خُدا کے لوگوں سے حاصل ہوئی ہے۔ الہامی ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ گذشتہ نسلوں میں چند مسیحیوں نے جِنہیں خُدا کے اُن لوگوں کے وسیلہ سے قبولیت یا د کرنے کے متعلق تفصیلاً نہیں بتایا گیا تھا۔ جِن کے لئے یہ بنیادی طور پر لکھی گئی ہو۔ اُن کتابوں کےلئے مقامی اور عارضی شناخت دی جو قانونی نہیں ہے۔ ( مثلاً چند Apocryphal کُتب) صرف چونکہ ایک کتاب چند ایمانداروں کے وسیلہ سے کہیں سے حاصل ہوئی تھی اِس کے الہامی ہونے کے ثبوت سے کوسوں دُور ہے۔ خُدا کے لوگوں کا ابتدائی حصول جو پیغمبرانہ کتاب کے تجزیہ کےلئے بہترین مقام پر تھے نہایت اہم ہے۔بعد میں آنے والی نسلوں کے تمام تر پہلووں کو اصل حالات کے متعلق معلومات دینے کے لئے کُچھ وقت لگا۔ چنانچہ اُن کی قبولیت اہم ہے مگر فطرتاً حمایتی ہے۔ سب سے اہم اور بُنیادیاصول باقی تمام کی جگہ لے لیتا ہے ۔ شناخت کے سارے مرحلے تلے ایک بنیادی اصول ہوتا ہے ۔۔۔ کتاب کی پیغمبرانہ فطرت اگر کوئی کتاب خُدا کے مقرر کردہ نبی کی طرف سے لکھی گئی ہو جو خُدا کی طرف سے یاک با اختیار تعلیم دینے کا دعویٰ کرتا ہو۔پھ دیگر سوال پوچھنے کی ضرورت نہ تھی۔ بے شک خُدا کے لوگوں نے کتاب کی شناخت بطور ایک طاقتور اور سچی کتاب کے کی جب یہ اُنہیں خُدا کے نبی کی طرف سے دی گئی۔ جب نبی کی بلاہٹ کی تصدیق ببراہ راست ر دستیاب نہ ہو (جیسے کہ اکثر اوقات خروج 4 باب1تا9 آیات میں) تو اُس کتاب کی تصدیق با عمل اختیار کی صلاحیت بعد میں ہونے والی شناخت کےلئے بنیادی طور پر جاننے والے گروہ کی وصولی لازمی قرار پاتے ہیں دوسری جانب صرف کتاب کو پیغمبرانہ ثابت کرنا خود ہی کتاب کی قنونیت کی تصدیق کےلئے اہم ہے۔ یہ سوال کہ آیا کہ ایک پیغمبرانہ کتاب کی غیر صداقت غیر مستحق قرار دے گی ۔ واضح طور پر غیر محکم ہے۔ خُدا کی طرف سے دی گئی کوئی بھی کتاب جھوٹی نہیں ہو سکتی ۔ اگر پیغمبرانہ دعویٰ کرنے والی کتاب لیں کوئی ناقابلِ تردید غلطی ہے۔ تو نبی کی تصدیق کا دوبارہ تجزیہ کرنا چاہیئے۔ خُدا جھوٹ نہیں بول سکتا۔ اِس طریقہ سے دیگر چار اصول پیغمبرانہ کردار کےلئے قانون کی کتابوں کی پرکھ کےلئے کام کریں گے۔

بائبل خُدا کے الہام سے ہے: گو کہ صدیوں تک مسیحیوں کو اپنے ایمان کو تحفظ یا وجہ دینے کےلئے سامنے بلایا جانا تھا ( 1 پطرس 3 باب 15آیت) چونکہ مسیح پر اُن کی ایمان کی بنیاد کلامِ پاک کے الہام کےلئے حمائیتی ثبوت کی جانچ کرنے سے پیشتر آئیے اِس کا مفصل خلاصہ بیان کریں کہ الہام کسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے۔ بائبل کے الہام کو شاعرانہ الہام کے ساتھ نہیں مِلنا چاہئیے ۔ بایبل پر لاگو کیا جانے والا الہام خُدا کی طرف سے ایمانداروں کو اِس کی تعلیم اور اُن کی زندگی کےلئے دیئے جانے والے اختیار کو پیش کرتا ہے۔

الٰہام کے متعلق بائبل کا بیان: لفظ الٰہام کا مطلب ہے” خُدا کا کہا ہوا“ اور یہ اُس مرحلے کو ظاہر کرتا ہے۔ جِس کے وسیلے سے کلام پاک یا تحریریں عبادت اور عقیدوں کےلئے الٰہی اختیار کے ساتھ منسوب کی گئیں( 2 تیمیتھیس 3 باب16اور 17 آیت) یہ وہ تحریریں ہیں جنہیں الٰہامی کہا جاتا ہے۔ تاہم مصنفین کو اُن کے پیغامات درج کرنے کےلئے روحالقُدّس سے تحریک چلتی تھی۔ اِس بنا پر جب سارے مرحلے پر غور کیا گیا الٰہام وہ ہے جو اُس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے۔ جب روح القُدس سے متحرک مصنفین خُدا کی کہی ہوئی تحریریں درج کرتے ہیں ۔ اِس الہام کے مکمل مرحلے میں تین عناصر شامل ہوتے ہیں ۔ الہٰی علّت و معلول انبیاءکا وسیلہ اور تحریری اختیار کا ماحصل۔

الٰہام میں تین عناصر: الٰہام میں پہلا عنصر الٰہی علت و معلول ہے۔ خُدا بنیادی محرک ہے جِس کے احکام پر نبی تحریر کا کام کرتے تھے۔ الٰہامی تحریروں کی حتمی بنیاد اِنسان کے ساتھ رابطہ کرنے کےلئے خُدا کی خواہش ہے دوسرا عنصر انبیاءکا وسیلہ ہے۔ خُدا کا کلام خُدا کے بندوں کے وسیلہ سے آتا ہے۔ خُدا اپنا پیغام پُہنچانے کے لئے اِنسانی ذات کا آلہٰ اِستعمال کرتا لے۔ آخرکار ، تحریری گفتار الٰہی اختیار کے ساتھ منسوب ہوتی ہے۔ انبیاءکے الفاظ خُدا کے الفاظ ہیں۔

ایک الٰہامی تحریر کی خصوصیات: الٰہام کی پہلی خاصیت اِس حقیقت میں پِنہاں ہے کہ ایک الٰہامی تحریر ہے : یعنی کہ یہ لفظی ہے۔ انبیاءکے الساظ خُدا کے عطا کردہ تھے۔ اِملا کی بدولت نہیں بلکہ انبیا کی اپنی لغت اور انداز سے کام کرتے ہوئے روح کی ہدایت کے باعث الٰہام مکمل(کامل) ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔کلام کا کوئی حِصہ بھی الٰہی الٰہام سے مبّرا نہیں ۔ پولوس نے لکھا کہ ” ہر ایک صحیفہ خُدا کے الٰہام سے ہے۔ اِس کے علاوہ ، الٰہام اصل دستاویزات کی تعلیمات کی بے گناہی کی طرف اشارہ کرتا ہے (جِسے ہاتھ کی تحریر کہتے ہیں ) جو کُچھ خُدا پکارتا ہے وہ بر حق اور لاخطا ہوتا ہے۔ اور بائبل کو خُدا کی گفتار کی گئی کہا جاتا ہے۔ آخر کار ، الٰہام صحائف کے الٰہی اختیار پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ صحائف کی تعلیم ایمانداروں کو عبادت اور ایمان سے جوڑتا ہے۔ الٰہام فقت مسیحیوں کی طرف سے بائبل کو ہی منسوب نہیں کیا جاتا۔ یہ ایسی چیز ہے جِس کا دعویٰ بائبل اپنے آپ کے لئے کرتی ہے بائبل کے اندر لفظی طور پر اِس کی الٰہی بنیاد کے حوالے سے سینکڑوں حوالہ جات ہیں ۔

پُرانے عہدنامے کا الہام: پُرانا عہد نامہ انبیائی تحریر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ فقرہ ”خُدا وند یوں فرماتا ہے“ اِس کے صفحات کو بھرتا ہے۔ جھوٹے نبی اور اُن کے اعمال خُدا کے گھرسے بےدخل کر دیئے گئے ۔ وہ پیشن گوئیاں جو خُدا کی طرف سے ثابت ہویئں ایک مُقدّس مقام پر محفوظ کی گیئں۔اِن مُقدّس تحریروں کے بڑھتے ہوئے گروہ کا تجزیہ کیا گیا اور بعد میں خُدا کے کلام کے طور پر حوالہ جات بھی لئے گئے۔ یَسّوع اور نئے عہد نامے کے مصنفین نے اِن تحریروں کو بالکل اِسی بلند تحریم و تکریم میں رکھا۔ اُنہوں نے اِن کے نا قابلِ تضحیک ، با اختیار اور خُدا کا الٰہامی کلام ہونے کا دعویٰ کیا۔ مکمل پُرانے عہد نامے کے بے شمار حوالہ جات کی بدولت ، اِس کے بنیادی حِصوں کو اور تقریباً پُرانے عہدنامے کی تمام تر کُتب کے حوالہ جات سے لئے ۔ عہد نامے کے مصنفین نے غالب آتے ہوئے پُرانے عہدنامے کے الٰہی الٰہامی ہونے کے دعویٰ کی تصدیق کی۔

نئے عہدنامے کا الٰہام:
(متّی 16باب 13تا 19 ٓ یات) اُس اختیار کو بیان کرتی ہے۔جو اُس کے رسُولوں سے منسوب ہوتا ہے۔ جو کہ اناجیل کے مُصَنف تھے اور باقی نئے عہد نامے کے بھی مُصنف تھے ہمارے پاس خود مسیح کی گواہی ہے کہرسُلوں کو ” بادشاہی کی کُنجیاں “ دی گئیں تھیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جِن کے پاس نئے عہدکے صحایف کو مرتب کرنے کا اختیار تھا۔ نیا عہد نامہ یَسّوع کی منِسٹری کے عینی شوا ہدین نے تحریر کیا ۔۔۔ اُس کے رسولوں پطرس، یوحنا، اور مَتّی نے ۔۔۔ اور اُن رسولوں نے جو بعد میں پہلی صدی کی کلیسیاءمیں ظاہر ہوئے تھے۔ ۔۔ پولوس ، پطرس، مرقس، یعقوب اور یہودہ۔ Eusebius چوتھی صدی کا تاریخدان Papias کے متعلق معلومات دیتے ہوئے جو یوحنا رسول کا شاگرد تھا ہمیں بتاتا لے کہ مرقس کی انجیل در اصل یَسّوع مسیح کے متعلق پطرس کی انجیل تھی جو کہ مرقس کا اُستاد کہلاتا تھا۔ ” بزرگ (یوحنا) نے یہ بھی کہا ” مرقس، پطرس کا متراجم ہوتے ہوئے نے ہر وہ چیز لکھی جو اُس نے بیان کی تھی۔ چاہےیہ مسیح کے کام تھے یا اُس کے اقوال تھے۔ تاہم ترتیب سے نہیں کیونکہ وہ خُدا وند کا نہ تو سننے والا تھا اور نہ ساتھی تھا۔ مگر بعد میں جیسے میں نے کہا وہ پطرس کے ہمراہ رہا ، جِس نےاپنی تعلیمات کی حسبِ ضرورت تشکیل کی۔۔۔ پس مرقس نے وہ چیزیں لکھتے ہوئے جیسے اُس نے (پطرس نے) بیان کیں ، کوئی غلطی نہ کی، کیونکہ اُس نے اس ایک بات پر توجہ دی کہ کوئی چیز ترک نہیں کرنی جو اُس نے سُنی تھی۔ اور اُن کے درمیان کسی جھوٹے بیان کو شامل نہیں کرنا“۔

رسولی تحریریں بالکل اُنہی با اختیار اصلاحات میں واضح طور پر بیان کی گئیں جو نئے عہد نامے کو بطور خُدا کا کلام ظاہر کرتی تھیں ۔اُنہیں ”صحائف “ ” پیشن گوئی“ وغیرہ کہا جاتا تھا۔ نئے عہد نامے کی ہر ایک کتاب الٰہی الہام کا دعویٰ رکھتی ہے۔ نئے عہد نامے کی کلیسیاءنے پُرانے عہدنامے کے الہامی صحائف کے ساتھ نئے عہدنامے کی کُتب کو پڑھا ۔ تقسیم کیا، جمع کیا، اور دوہرایا۔ رسولی دور کے فوری جانشینوں اور ہم خیال لوگوں نے نئے عہدنامے کی الٰہی بنیاد کو پُرانی کے ساتھ شناخت کیا، صرف بدعتی چیزوں کو مثنیٰ کرنے کے ساتھ ، ابتدائی دور میں مسیحی کلیسیاءکے تمام تر عظیم فادر ز نئے عہدنامے کے الٰہی الٰہام کو ملایا۔ مختصراً ، نئے عہدنامے کے الہامی ہونے کا دعویٰ اُن کی تحریر سے لے کر آج تک ایک مُسلسل دعویٰ ہے۔ موجودہ جدید دور میں اِس دعویٰ کو مسیحت کے اندر اور باہر بہت سے سنجیدہ مقابلوں کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔ یہ مقابلہ بائبل کے الٰہامی ہونے کے دعویٰ کے اثبات کو دعوت دیتا ہے۔

” واحد “ کلامِ پاک کا اختیار Sola Scriptura

یہ کلامِ پاک کا واحد اختیار ہے ، جسے Sola Scriptura کے طور پر جانا جاتاہے ۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ خدا کون ہیں ، اور نجات کا حقیقی راستہ کیا ہے ۔ اِس کے علاوہ ، بائبل دیگر تمام علوم کا مرکز ہے ۔ خدا کا کلام تمام نظم و ضبط اُن کی سچائیاں اور صداقت دیتا ہے ، نہ کہ اِس کے برعکس ۔

” پس یسوع قیصریہ فلپی کے علاقہ میں آیا ۔ تو اُس نے اپنے ۔۔۔۔۔۔۔( متی16باب13تا19آےات )۔

اِس پیرا گراف میں ، پطرس واضح اور صاف صاف اقرار کرتا ہے کہ یسوع معودہ مسیحا تھا ۔ مسیح ، جو زندہ خدا کا بیٹا ہے ، یسوع نے پطرس کو مبارک کرتا ہے ۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اُس نے اُس کا نام پطرس رکھا ( یونانی میں :Petros) ۔ اِس لفظ کا ترجمہ “ چٹان “ اِسی حوالہ میں پاےا جاتا ہے ۔ اِس کی بدولت یسوع اشارہ کرتا ہے کہ کوئی شخص جو اِس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ وہ مسیحا ہے اور خدا مضبوط ہے اور وہ خداوند کے احکامات اور عقائد کی پابندی میں تاخیر نہیں برت سکتا ۔

رومن کیتھو لک چرچ نے اِس آیت کا مطلب یہ لیا کہ پطرس چٹان ہے ، اور اِس حوالے سے پوپ کی بے خطائی کا عقیدہ اخذ کر لیا ۔ تاہم ہم اِس حوالے کے یونانی گرائمر کے ڈھانچے سے یہ بات واضح کہ ” یہ چٹان “ میں لفظ ” یہ “ پہلے فقرے کو ظاہر کرتا ہے : ” خون اور گوشت نے یہ بات تُجھ پر ظاہر نہیں کی “۔ بلا شبہ یہ بات واضح ہے کہ یسوع اپنا نقطہءنظر واضح کرنے کےلئے الفاظ کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ ” یہ چٹان“ Petra پطرس نہیں ہے ۔ بلکہ یہ مکاشفہ ہے کہ یسوع ، مسیحا ، خدا کا بےٹا ہے ۔

یسوع اُس اختیار کا اعلان کرتا ہے جو وہ پطرس اور اُن شاگردوں میں منکشف کرے گا جو کلیسیا بناتے ہیں ۔ اُس کے شاگرد اپنے چال چلن میں خطا کار اور گناہگار تھے ، مگر خدا کی فطرت بےان کرنے میں ، نجات کا راستہ تلاش کرنے میں ، وفاداری کے اصول میں ، ایمانداروں کے کردار اور تجربہ میں ، اور ریاکاروں اور بے دینوں کی آخری قیامت میں خطا سے مبرا کئے گئے تھے ۔ ایسے معاملات میں ، اُن کا فیصلہ درست ہو سکتا تھا ۔ اور آسمان پر اُسکی تصدیق ہو گئی ۔ خدا کے سوائے ، کوئی گناہ معاف نہیں کر سکتا ، مگر کلیسیا وقت سے قبل خدا کی عدالت کا اعلان کرنے کا حکم دے رہی ہے ۔ ” باندھنا اور کھولنا “ ” منع کرنے یا اجازت دینے “ یا خدا کے کلام کے مطابق جائز اور ناجائز کی تعلیم دینے کو ظاہر کرتا ہے ۔

صحائف تمام چیزوں پر مسیح کے اختیار اور اپس اختیار کی تشریح کرتے ہیں جو اُس نے کلیسیا کو سچائی کا پیغام پھیلانے کےلئے دیا ہے :
”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( ےسعےاہ22باب22آےت )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( مکاشفہ1باب17اور18آےت ) ۔۔۔۔۔۔۔“
”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( مکاشفہ3باب7آےت )۔۔۔۔۔۔۔۔“

رسولوں کے وقت سے نئے عہد نامے کی کُتب کی فہرستوں تک جنہیں دوسری اور تیسری صدی کے کلیسیائی حکمرانوں نے درج کیا تھا ، یہاں اِس بات پر موافقت پائی جاتی تھی کہ کون سی تحریریں صحائفی اور رسولی ہیں ۔
کلیسیائی حکمرانوں نے ” ایمان کا اصول“ بھی سکھایا ، جو کہ بنیادی طور پر رسولوں کے عقیدہ اور مسیحی تعلیم کی ابتدائی سورت ہے ، جسے زبانی یاد کیا گیا تھا اور اُن بشپ صاحبان نے اِسے زبانی اگلی نسل کو منتقل کیا جنہیں رسولوں نے مخصوص کیا تھا اِس دور میں سچائی کے متلاشیوں کو رسولی حکمران کہا جاتا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا کسی ایک یا زیادہ رسولوں سے تعلق تھا ۔ پہلی صدی میں ، ” رسولی فاردز“ کلیمنٹ ، اگنےشیس ، پائپاس اور پولی لارپ، کا مان مشہور ہے ، بوجہ کسی ایک رسول کے ساتھ اُن کا تعلق تھا ۔ ہم رسولو ں کے دور اور اُس دور کے مابین سچے ایمان کی فتح کا تجربہ کرنے کےلئے کلیسیا کے فادرز پر غور و خوص کرتے ہیں جب نئے عہد نامے کا قانون حاصل ہوا تھا ۔

مسیح نے اپنے شاگردوں کو اختےار بخشا، ”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( متی 16باب19آےت )

پس یہ اختیار ، کلمہ مُتجسد ہوا سے اخذ کی گئی ہے ، مگر ابتدائی کلیسیاکے وقت کے دوران ، صحائف کا لکھا جانا ، پرکھا جانا او ر اُس کتاب میں شامل ہونا لازمی تھا جسے آج ہم نئے عہد نامے کے قانون کے طور پر جانتے ہیں ۔ اِسی لئے ہم اِس بات کوپہچاننے کی ضرورت ہے کہ ابتدا ہی سے کلیسیا میں اِس بات کا فےصلہ کرنے کےلئے مضبوط اختیار استعمال کیا گیا کہ کون سا عقیدہ درست تھا۔
پروٹےسٹنٹ اِس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حتمی اختیار اکیلے کلام سے آتا ہے ۔ اگر ہم ، Sola Scriptura پر ایمان رکھتے ہیں ، تو پھر اِس بات کا فیصلہ کس نے کیا کہ کون سی کُتب بائبل سے تعلق رکھتی تھیں ؟ یسوع نے بائبل نہیں لکھی ۔ اور چونکہ بائبل خود بخود نہیں لکھی گئی، یقینا یہ بات واضح ہے کہ اِس کے لئے صحائف سے ہٹ کر کوئی اختیار عمل پذیر نہیں ہوا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ، کلیسیا نے بائبل کی تقدیم کی ہے ، بائبل نے کلیسیا کی تقدیم نہیں کی ۔ رسولوں اور اُن کے پیش رو نے سچے کلام کی وضاحت وضاحت کی اور پہلی اور دوسری صدی کی کلیسیا نے اُن کتب کو حاصل کیا جو قانونی تھیں اور وہ کُتب جو رد ہوئی تھیں وہ قانونی نہیں تھں ۔

Sola Scriptura کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہر وہ ایمان جس کے پاس بائبل ہے خود میں ایک پوپ ہے Sola Scriptura کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ بائبل کا کلیسیائی تاریخ کی مجلس ، کلیسیا کی مجالس اور عقائد کی تصدیق کے بغیر ترجمہ ہو سکتا ہے ۔

Sola Scriptura کا مطلب کہ صرف بائبل ہی لاخطا ہے ، اور یہ کہ صرف کلامِ پاک ہی ہمیں وہ تمام سچائیاں بتاتا ہے جو ہمیں نجات دینے والے ایمان کے متعلق جاننے کی ضرورت ہے اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کلام سے ہٹ کر کوئی اختیار نہیں ہے ۔ انسان غلطی کر سکتا اور گنا ہ مر تکب ہو سکتا ہے ، مگر یسو ع کے شاگرد ، جنہیں مخصوص کیا گےا تھا ۔ اور کلیسیا کی مجلس جو روح القدس کے ساتھ کام کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنی نجات ست متعلق تعلیمات اور رسولوں اور Nicene کے عقیدہ کے بنیادی نقاط میں روایت پسند کو برقرار رکھا ۔
یسوع نے روح القدس کی بدولت سچائی کی تشریح کرنے میں اپنے رسولوں کی لاخطائی عطا کی ۔ روح القدس نے بھی کلیسیا کی اُن تحریروں کو حاصل کرنے میں راہنمائی کی جو بنیادی طور پر رسولی ، الہامی اور لا خطا تھیں ۔
نئے دور کی انفرادی مسیحیت نے کبھی بھی پورے کلیسیائی دور میں وقت کی آزمائش کا سامان نہیں کےا ہو گا ۔ آج کے مسیحی اِس بات کا یقین رکھنے پر مائل ہیں کہ کوئی شخص کلیسیائی فادرز کا مطالعہ تنقیدی طور پر نہیں کر سکتا ۔
بشارتی مسیحیت نے اِس بات کی تعلیم دی کہ کلیسیائی فادرز کے ایمان کا اصول اِسے تجدید میں لانے اور اِس کے مستند ہونے میں بائبل کے حوالے کے محتاج ہیں ، تاکہ اُن کی سوچ میں نا کاملیت صاف کیا جائے ۔ مگر یہ بالکل بر عکس ہے چونکہ ” ایمان کا اصول “ ایسی چیز ہے جو کامل چیز کی پیمائش کےلئے ااستعمال ہوتی تھیں ۔

صرف خدا کا کلام ہی کامل ہے ۔ مگر ہمارے روحانی لا خطائی کے تصور میں ہم یہ بات شامل کرتے ہیں کہ خدا نے ناکامل انسانوں کو صحائف لکھنے کےلئے استعما ل کیا اور بعد میں اِن ناکامل انسانوں نے وہ کُتب حاصل کیں جو قانون سے بنا کسی غلطی کے تعلق رکھتی تھیں ۔

جب کہ رسول اور کلیسیا کے فادرزخود بھی خطا کار انسان تھے ، ہمیں اِس بات کو سمجھنا چاہیے جو تاریخی کلیسیا صحائف کی سچائی کے متعلق کہتے ہیں ، بجائے اِس کے کہ ہم صحائف کے متعلق ہماری اپنی سمجھ سے کلیسیائی فادرز کے عقائد کو ڈھالیں ، ہمیں خود میری ہی کلام کے حوالے سے سمجھ بوجھ پر غور کرنا چاہیے اور پوچھنا چاہیے کہ : ” کیا ہماری کلام کی سمجھ بوجھ کیتھولک اور رسولی کلیسیا سے ربط رکھتی ہے ؟“

ایڈیٹر کا نوٹ :
میں نے Josh MacDowell کی تحریروں کا استعمال کیا ہے ، جس کا مواد درج ذیل حصے میں تبدیل کیا گیا اور نئے جُملوں میں قلم بند کیا گیا ہے : ” قانونیت کی دریافت کےلئے اصول “
ُPrinciples for Discovering Canoncity

Your comments are welcome

Use Textile help to style your comments

Suggested products