مسیحیت اور بدعتی گروہ

وہی پرانے بھیڑیوں کے بھیڑ کی کھال پہننے کی کہانیوں کے علاوہ یہاں پر کوئی نئی بدعتیں نہیں ہیں ۔ جب ہم مسیحت کے پہلے پانچ سو سالوں میںموجود بدعتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں ، تو ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ وہ جدید ”بدعتی گروہ“ جو مسیحی کلیسیاء کو خوفزدہ کرتے ہیں وہ اِ ن پرانی بدعتوں میں سے کسی نہ کسی بدعت پر منحصر ہیں ۔
بدعتیں یا بدعتوں کا مطالعہ ، مسیحیوں کے لئے مفید ہے ۔ جھوٹی تعلیم کا مطالعہ ہمیں سچائی کی جامع اور مفید سمجھ فراہم کر سکتا ہے ۔ بدعتی انسان کو لغوی طور پر ”تفرقہ پیدا کرنے والا شخص“ کہا جاتا ہے ۔ بنیادی طور پر بدعت سے مراد اُن لازم و ملزوم سچائیوں سے پرے ہٹ جانا جو رسولوں ، نائی سین ، ایتھین ایشین ، اور چالسیڈونین عقائدکی طرف سے بیان کی گئی تھیں۔ بدعت کے دوسرے مرحلے میں دوسری قسم کی غلط تعلیم ات شامل ہیں جن کا نتےجہ خواہ ابدی عذاب نہ بھی ہو ۔ ہمیں اِ ن غیر ضروری عناصر کے دوسری قسم کے تنازعات کے لئے ہمیشہ لفظ ”بدعت “ کو استعمال نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہم محض یوں بھی کہہ سکتے ہیں: ”میرا ماننا ہے کہ یہ غلط ہے ۔“ ہم لازمی طور پر عقیدے کی تقلید پسندی کے عناصر پر متفق ہونا چاہیے؛ لیکن ہم غیر ضرور ی عناصر پر عدم اتفاق کا اظہار کر سکتے ہیں ، اور ہمیں ان سب باتوں کے لئے اُن لوگوں کے ساتھ بھی پیار کے ساتھ پیش آنا چاہیے جو مسیح کا انکار کرنے کے گناہگار ہیں۔ ہمیں درج ذیل اصولوں کی پیروی کرنی چاہیے : ” ضروری باتوں کا اتحاد؛ غیر ضروری باتوں کی آزادی ، اور تمام باتوں میں سخاوت۔ “
پولُس رسول کی خدمت کے دوران، کرنتھس کی کلیسیاء ، جس کی اُس نے بنیادرکھی تھی ، بدعتوں اور مسیح کے علاوہ دوسری قسم کی روح کے باعث بگاڑ کے خطر میں تھی ۔ پولُس نے کرنتھس کی کلیسیاء کو تبنیہ کی کہ شیطان ”نو ر کے فرشتہ “ کی مانند ظاہر ہونے کے لائق ہے (پہلا کرنتھیوں 11 باب 14 آیت) ۔ دوسرے الفاظ میں ، بدعتی آدمی ادھوری سچائی رکھتا ہے ، لیکن اِس جڑتک وہ غلط ہوتا ہے ۔ پولُس نے تعلیم دی کہ بے شک بدعتیں مکار اور شیطان کی طرف سے ہوتی ہیں ، لیکن اُن میں خدا کے سارے منصوبے کے لئے کوئی نہ کوئی مقصدہوتا ہے ۔
”کیونکہ اول تو میں یہ سنتا ہوں کہ جس وقت تمہاری کلیسیاء جمع ہوتی ہے تو تم میں تفرقے ہوتے ہیں اور میں اِس کا کسی قدر یقین بھی کرتا ہوں۔ کیونکہ تم میں بدعتوں کا بھی ہونا ضرور ہے تا کہ ظاہر ہو جائے کہ تم میں مقبول کون سے ہیں ۔ “(پہلا کرنتھیوں 11 باب 19 اور 19 آیت)
جہاں کہیں بھی کسی کلیسیاء نے جنم لیا ہے ، وہاں وہاں تفرقے اور بدعتیں ہمیشہ موجود رہی ہیں ۔ تفرقہ پیداکرنے والے شیطان کی طرف
سے ہوتے ہیں ، لیکن پولُس کہتا ہے ، ”تم میں بدعتوں کا بھی ہونا ضرور ہے ۔“ پولُس کے کہنے سے یہ مراد نہیں تھی کہ تفرقہ پیدا کرنے والے جانیں اچھی ہیں ، یا یہ کہ اُن کی تعظیم کی جانی چاہیے ۔ اُس کی یہ تعلیم دینے سے یہ مراد ہے کہ بدعتیں خدا کے مقصد کو پورا کرتی ہیں ۔ خدا کلیسیاء میں سچائی کے تضاد کے طور پر شیطان کو تفریق یا بدعت لانے کی اجازت دیتا ہے ۔ خدا کا مقصد آدمیوں کی نظرو ں میں اُن لوگوں کو تعظیم کرنا ہے جو سچی انجیل کا پرچار کر تے ہیں ۔
کوئی بھی بشر کامل سچائی کو جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے ، لیکن ایک مسیحی اپنے دل میں تمام قسم کی جھوٹے الزامات اور تفرقہ پیدا کرنے والی اُن جانوں سے بچنے کا عزم کر سکتا ہے جو اُس پر غالب آنے کی کوشش کرتی ہیں اور ”دنیا کے خلاف آیتھناسوئس “ کے طور پر کھڑا ہو جاتا ہے ، یعنی ایک ایسے شخص کے طور پر جو انجیل پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا ہے ۔ اگر وہ سچائی کی روح کو برقرار رکھتا ہے توخدا مخالفت کو اُس کی تعظیم کے لئے استعمال کرے گا۔

تین ابتدائی بدعتیں
روم کی مظاہر پرست سلطنت کی تباہی کے بعد، شیطان نے بدعتوں کے باعث کلیسیاء کو شدید اذیت دی ۔ مسیح کے بعد کے اوائل کے سالوں میں ہی، خدا نے کلیسیاء کو غیرقوموں کے ہاتھوں ایذارسانی سے نجات دلانے، اور مظاہر پرست کی سلطنت کو زوال پذیر کرنے کے لئے جلالی کام کیا۔ لیکن کلیسیاء کی ایذار سانی کے دن ختم نہ ہوئے تھے ۔ کانسٹن ٹائن کے وقت کے بعد ، امن کا دور گزرا۔ لیکن پھر کلیسیاء اندوری خلفشار کے باعث بدعتوں کی ایذارسانی کا شکار ہوئی ۔
کلیسیاء کی پہلی پانچ صدیوں کے دوران ، بنیادی بدعتوں کی پانچ جامع اور وسیع اقسام تھیں ۔ یہ جنوسٹک، آرئین اور پیلاجین بدعتیں کہلاتی ہیں ۔ میں اِ ن بدعتوں کی تین مختصر تعریفیں بیان کروں گا؛ تب میں اِس بات کو ثابت کروں گا کہ یہ تمام بدعتیں اور خطائیں اِن بنیادی بدعتوں کے ساتھ کیسے منسلک ہوتی ہیں ؛ اور بالآخر، میں اِس بات کی بھی وضاحت کروں گا کہ جدید مذہبی بدعتی گروہ اور جھوٹے نظریات اِن پرانی بدعتوں میں سے کسی نہ کسی بدعت کو کیسے از سر نو پیدا کرتے ہیں ۔
جنوسٹک بدعتیں پہلی صدی میں منظر عام پر آئیں اور اِن کی نمائندگی وہ بہت سے پر اسرار مذاہب کرتے ہیں جو مشرق سے وجود میں آئے ۔ یوحنا رسول کے مطابق، یہ ”پراسرار راز“ ”بابل“ میں سے وجود میں آئے (مکاشفہ 17 باب 5 آیت)۔ پہلی صدی کے اختتام تک، جنوسٹک ازم نے نہ صرف نئے عہد نامے کی کلیسیاء پر برا اثر ڈالا، بلکہ یہودیت پر بھی بُرا اثر ڈالا۔ جنوسٹک ازم نے بے شمار مسیحی اور یہودی عناصر کو اپنے اندر شامل کر لیا اور وہ مسیحیت کے لئے بڑا خطرا بن گئے ۔ جنوسٹک ازم کے پیروکار اِس بات پر یقین رکھتے تھے کہ روح اچھی ہے ، اور جسم برا ہے ، نجات روح کے جسم سے آزاد ہونے پر آتی ہے ، اور کہ نجات کسی قسم کے خفیہ یا اعلی تر ”علم“ کی بدولت حاصل کی جاتی ہے (یونانی: جنوسس) ۔ جنوسٹک پیروکاروں نے اِس بات کی تعلیم دی کہ عظیم خدا بالاتر اور ناقابل رسائی ہے ، لیکن اُس میں سے سلسلہ وار دوسرے ادنیٰ جلوہ گر رونما ہوئے جنہیں وہ قوتیں کہا جاتا ہے جو بنائے عالم سے پیشترموجود تھیں۔ اور بنائے عالم سے پیشتر وجود رکھنی والی قوتوں میں سب سے ادنی ”یہواہ“ تھی ۔ مسیح سے سے اعلی قوت ہے ۔ چونکہ جسم رکھنے والی ہر چیز بُری ہے ، اِس لئے اُنہوں نے اِس بات کی تعلیم دی کہ مسیح صرف روح میں موجود تھا اور اُس کا جسم ظاہری تھا، یا یوں کہیے کہ مسیح کے جسم کے انسانی نہیں بلکہ نوری ہونے کی تعلیم دی ۔ کچھ لوگوں نے اِس بات کی تعلیم دی کہ مسیح روح تھا، جو عارضی طور پر یسوع نامی ایک شخص کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جو مر گیا، جسے سارِنتھین ازم کی تعلیم بھی کہا جاتا ہے ۔ خدا کے بارے میں جنوسٹک نظریات کی یوحنا نے اپنی تصانیف میں، پولُس نے کلسیوں کے نام خط میں اور الہایات کے آبائی ماہر مصنفین اور تنقید نگاروں نے اپنی تصانیف میں مخالفت کی۔
بادشاہ کانسٹن ٹائن کے تخت پر بیٹھنے کے بعد آرئین قوت بن ابھرے ۔ آریوس چوتھی صدی کے شروع میں اسکندریہ کا ایک کاہن تھا۔ اُس نے تثلیث کے نظریہ، اور مسیح اور روح پاک کی الوہیت سے انکار کر دیا۔ آریوس نے اِس نظریہ کو پیش کیا کہ مسیح اور روح پاک ”ادنیٰ خدا“ اور باپ کی تخلیق تھے ۔ آرئین ازم میں جنوسٹک ازم اور پیلاجین ازم دونوں کے عناصر شامل ہیں ۔ اِس بدعت کا اُس ندی کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے جو سانپ کے منہ سے بہتی ہے ، جو اُس عورت کو ندی کے ساتھ بہا لے جانے کی دھمکی دیتی ہے (مکاشفہ 12 باب 15 آیت)۔ اِس بدعت نے کلیسیاء میں جنم لیا اور کلیسیاء کو بہا لے جانے کی دھمکی دیتے ہوئے ندی کی طرح غالب آ گئی ، اور یہ چوتھی صدی کے اختتام تک اتنی زیادہ غالب آ گئی کہ مسیحی کلیسیاء ایک بڑا حصہ آرئین بن چکا تھا۔ یہاں تک کہ کانسٹن ٹائن کے چند ایک ایسے جانشین بادشاہ تھے ، جو آرئین تھے ۔ چنانچہ بڑی جماعت ہوتے ہوئے آرئین مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں کے پاس کلیسیاء کو ایذا دینے کے لئے اجتماعی اختیار موجود تھا۔ آیتھناسوئس نے اُ ن کی مخالفت کی اور بالآخر پانچویں صدی میں اُن کو شکست ہوئی۔
پیلاجین مکتبہ ہائے فکر پانچویں صدی کے شروع میں وجود میں آیا۔ یہ بدعت پیلاجوئس کی معرفت شروع ہوئی، جو برطانیہ کے کسی علاقہ میں پیدا ہوا ترھا۔ اُس کا برطانوی نام ”مارگن “ تھا۔ پیلاجوئس نے موروثی گناہ اور مسیحیت کی قبولیت کے لئے خدا روح پاک کی تحریک کا انکار کیا۔ اُس نے اِس بات کی تعلیم دی کی انسانی رضا میں نجات کا حاصل کرنے کی طاقت موجود ہے ۔ اِس بدعت نے ایک لمبے عرصے تک کلیسیاء کو ایذامیں رکھا۔ پیلاجوئس کا پہلا مخالف آگسٹن تھا، جو پانچویں صدی میں ہپو کا بشپ تھا ، جس نے تقلید پسندی کے ایمان کے دفاع میں تحاریر تصنیف کیں ۔ سال 529 ء میں کونسل آف اورنج بلائی گئی ، جس نے پیلاجین ازم کو رد کر دیا اور کچھ ردوبدل کے ساتھ آگسٹینین مکتبہ ہائے فکر کس سچے کیتھولک عقیدے کے طور پر تصدیق کر دی ۔
بابل، اسکندریہ اور برطانیہ مشرقی ، وسطی اور مغربی دنیاکے لئے نمونہ کے طور پر ابھر کا سامنے آئے ۔ گو کہ یہ ایک بہت بڑی عمومیت تھی، لیکن بدعتوں کے مطالعہ کے لئے نہآیت مفید ہے ۔ ہم انسان کے گرد کی بدعتوں کا مغرب کے ساتھ اور خدا کے گرد کی بدعتوں کو مشرق کے ساتھ منسلک کر سکتے ہیں ، جب کہ آرئین ازم مشرقی اور مغربی دونوں کی نظریاتی غلطیوں کو شامل کرتا ہے ۔
پیلاجوئس کے زمانہ سے پہلے، جنوسٹک ازم اور آرئین ازم کلیسیاء کے لئے بڑا خطرہ تھے۔ پہلی صدیوں کے دوران ، الہیات کے مکتبہ ہائے فکر انطاکیہ، اسکندریہ اور مشرق کے کچھ شہروں کو مرکز تسلیم کر کے ترتیب دی گئی تھی ۔ اِس زمانہ کی زیادہ تر بدعتیں خدا اور مسیح کی قدرت یا علم الہیات اور مسیحآیت کی غلط سمجھ سے منسلک تھیں ۔ پانچویں صدی تک ، روم مغربی مسیحیت کا مرکز بن چکا تھا ۔ اِس زمانہ کے بعد، علم الہیات کی مسیحی تعلیم آدمی اور اُس کی نجات ، یا علم الانسان یا علم الانجات کے سوالات کا جواب دینے کے لئے مزید منظم ہونا شروع ہو گی۔ مشرق میں ، علم الہیات کچھ حد تک تبدیل ہو چکی ہے ، کیونکہ مشرق سے جنم لینے والی بدعتوں کا کلیسیاء کی طرف سے بہت پہلے ہی جواب دیا جا چکا تھا۔ لیکن مغربی دنیا میں ، مغربی سوچ میں پیلاجین رجحان ہونے کے باعث ، علم الہیات علم الانجات کے ساتھ ساتھ بڑی مشکل کے ساتھ پروا ن چڑھی ۔ تمام مسیحی اِس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ پیلاجین ازم پہلی بدعت تھی ۔ اگر کوئی شخص یہ تعلیم دے کہ بنیادی طور پر انسان اچھا ہے اور یہ کہ ہم اپنے خود کے کامو ں کی بدولت نجات یافتہ ہوتے ہیں ، تب یہاں پر ایک بنیادی بدعت موجود ہوتی ہے، کیونکہ یہ صلیب پر مسیح کے کفارہ کے کام کا انکار ہوتا ہے ۔ سچی مسیحیت اِس عقیدہ کی تعلیم نہیں دیتی ہے ۔

افعی کے بچے
پولُس ، یوحنا اور دوسرے رسولوں کی تصانیف کی وساطت سے ہم جانتے ہیں کہ نہ صرف ہماری بیسویں صدی کی بدعتیں ابتدائی کلیسیاء کی بدعتوں کے ساتھ مماثلت رکھتی ہیں ، بلکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ شیطان شروع ہی سے جھوٹا رہا ہے ، اور اُس نے انسان کو خدا سے دورکرنے کے لئے اِسی حکمت عملی کو استعمال کیا ہے ۔
”کہیں ایسا نہ ہو کہ جس سانپ نے اپنی مکاری سے حوا کو بہکایا اُسی طرح تمہارے خیالات بھی اُس خلوص اور پاکدامنی سے ہٹ جائیں جو مسیح کے ساتھ ہونی چاہیے۔ “(دوسرا کرنتھیو ں 11 باب 3 آیت) ۔
ہم اِس دنیامیں سچائی سے طلاق یافتہ پیدا نہیں ہوئے ہیں ؛ بلکہ سچائی ہمارے ذہن میں آدم کے گناہ کے باعث مبہم ہے ۔ پولُس کے رومیوں کے نام خط میں، رسول اُس ”فطر ی مکاشفہ “ کی بابت لکھتا ہے جو تمام آدمیوں پر آشکار ہوتی ہے ۔

”کیونکہ خدا کا غضب اُن آدمیوں کی تمام بے دینی اور ناراستی پر آسمان سے ظاہر ہوتا ہے جو حق کو ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں ۔ کیونکہ جو کچھ خدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے۔ اِس لئے کہ خدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کر دیا۔ کیونکہ اُس اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سی بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں ۔ یہاں تک کہ اُن کو کچھ عذر باقی نہیں۔ اِس لئے کہ اگر چہ اُنہوں نے خدا کو جان تو لیا مگر اُس کی خدا کے لائق اُس کی تمجید اور شکرگذاری نہ کی بلکہ باطل خیال میں پڑ گئے ارو اُن کے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا۔ “

اِس عبارت میں بیان کیاجانے والا موروثی گناہ ”آدمیوں کی ناراستی “ ہے ۔ ہم سب نے باغ عدن میں آدم اورحواکے موروثی گناہ کے باعث گناہ کی فطرت ورثہ میں پائی ہے (پیدائش 3 باب) ۔ موروثی گناہ نہ صرف ہمارے گناہ کی ذاتی کام ہیں ، بلکہ یہ وہ گناہ کی فطرت (یا جسم) بھی ہے جس کے ساتھ ہم سب لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ خدا اور آدمی کے بارے میں تمام کے تمام باطل خیالات کی شروعات موروثی گناہ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ درحقیقت، تمام بابتوں کے متعلق تمام باطل خیالات آدمی کے خدا کے ساتھ راستبازی کے تعلق میں نہ ہونے کے باعث ہیں۔ تمام بدعتیں اُس دھوکے کا از سر نو اظہار ہیں جسے مکار دشمن نے ترتیب دیا تھا۔
موروثی گناہ کی ترتیب ، یا ”خدا کا انکار کرنے کے چار مرحلے “ پیدایش کی کتاب کے 3 باب کی 1 تا 4 آیت میں پائے جاتے ہیں ۔ ”اور سانپ کُل دشتی جانوروں سے جن خداوند خدا نے بنایا تھا چالاک تھا اور اُس نے عورت سے کہا کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا۔ دورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھا تے ہیں ۔ پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جاﺅ گے ۔ تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مروگے۔ “ پھر سانپ نے عورت سے کہا۔ ”بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاﺅ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاﺅ گے ۔“
اِسی طرح سے ، چار مرحلوں پر محےط ایک ایسا عمل ہے جس کی وساطت سے کوئی ثقافت اپنی مسیحی تقلید پسندی اور اخلاقیات سے مبرہ ہو جاتی ہے اور بدعتوں اور عقائد کی غلطیوں سے بھر جاتی ہے جو روحانی طور پر جعلی مسیحیت کا عیاں کرتی ہے ۔ خدا کے وجود کا انکار کرنے کے درج ذیل چار مرحلہ جات ہیں۔

مرحلہ نمبر 1 : خدا کی بابت بھول جانا – ”کیا خدا نے واقعی کہا ہے کہ۔۔۔۔؟“
مرحلہ نمبر 2 : خدا کی شرےعت کو بھول جانا – ”باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟“
مرحلہ نمبر 3 : نئے خدا بنانا – ”تم ہرگز نہ مرو گے ۔۔۔ تمہاری آنکھیں کھل جائیں اور تم خدا کی مانند بن جاﺅ گے ۔۔۔“ (اپنی ذات کا خدا)۔
مرحلہ نمبر 4 : نئی شریعت کو قائم کرنا – ”۔۔ ۔نیک و بند کے جاننے والے۔“

خدا نے نے انسان کو اپنے ساتھ تعلق رکھنے والے کے طور پر تخلیق کیا تھا۔ آدم اور حواکے گناہ کے بعد، خدا نے ہمارے گناہوں کا فدیہ دینے کے لئے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجا تا کہ اُس کے ساتھ شراکت پھر سے بن کر برقرار رہے ۔ ہر وہ شخص جو رہائی کے لئے اپنی ضرورت کو واضح طور پر دیکھتا ہے اُس کے لئے نجات کا فوری پیغام حاصل ہو جاتا ہے ۔ وہ شخص جو خدا کے ساتھ راستباز تعلق میں ہے وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کو درست پس منظر میں دیکھتا ہے ۔ مسیحی تقلید پسندی سب باتوں کے حوالہ سے درست آراء، اور خدا کے کلام پر تمام کام سچائی کے طور پر ایمان رکھنا خدا کے ساتھ راستباز تعلق کے نتیجے میں آتا ہے ۔
کیونکہ خدا نے انسان کو اپنے ساتھ تعلق میں رہنے کے لئے تخلیق کیا تھا ، یہا ں پر غیر نجات یافتہ لوگ موجود ہیں جو ”خدا کی شبیہ سے عاری“ ہونے کا نتیجہ ہیں۔ وہ لوگ جو یسوع مسیح میں ایمان رکھنے سے انکار کرتے ہیں وہ ہمیشہ ایک ایسی بدعتی تعلیم کو جنم دینے کا باعث
بنتے ہیں جو یا تو روحانی باتوں پر زور دے کر سچائی کے خدائی پہلو کی غلط تاویل کرتے ہیں ، یا پھر مادیت پر زور دے کر سچائی کے انسانی پہلو پر فوقیت دیتے ہیں۔
ہم ایک عام مثالی تبدیلی دیکھتے ہیں ، جو ایک ہی نسل میں مکمل ثقافت کو ایڈوپشن ازم اور پیلاجین ازم کے رجحان سے ڈوسیٹازم اور جنوسٹک ازم کی جانب ترغیب دی سکتی ہے ۔ بیسویں صدی کے شروع میں ، ایڈوپشن ازم کی بدعتیں ہمارے آج کے روز کی نسبت زیادہ تعدا د میں موجود تھیں ۔ ہم ”اعلی تر تنقید نگاروں ‘ ‘ کو ”تاریخی یسوع“ کی کھوج میں دیکھتے ہیں (اور ہم علم الا معقولیت، طبعی مذہبی علوم ، علوم منکرعقائد اور علم الاوجودیت میں بھی ) پیلاجین غلطی کا ایک مظبوط رجحان دیکھتے ہیں ، یعنی یہ کہ یہ خیال کہ انسان اپنے آپ کو کامل کر سکتا ہے ۔ انسان مرکزیت کی اِس غلطی کا رجحان اٹھارویں صدی کی روشن خیال میں شروع ہوا اور اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ 200 سالوں تک جاری رہا۔
امریکہ اور دوسرے مغربی قوموں میں چالیس یا پچاس سال پہلے تک ، ہم نے ایک تبدیلی دیکھنا شروع کی ۔ ایک نسل میں ، ہم نے خدا اور خدا کی شریعت کے متعلق بھلا دیا ۔ نوجوان نسل نے مسیحی اخلاقیات کو پس پشت ڈال کا ِسرے سے ہی بھلا دیا۔ 1960 کی دہائی کے آخر تک نتیجہ ”وڈز سٹاک نیشن “ کی علامت کے طور پر نکلا ، جو بغاوت کا جشن منانے والا شوخ سازندوں سے بھرپور نشہ آور گروہ تھا جو دیوتاﺅں کے لئے رقص و سرود کی محفلیں سجاتا تھا۔ لیکن خدا اور اُس کی شریعت کی عدم موجودگی نے روحانی خلا قائم کر دیا۔ ”فلاور چالڈ“ نسل کی ابھرنے کے بعد، Transcendental Meditation اور بہت سے دوسری اقسام کی بدعتی گروہوں کی طرح نئے مذاہب نے ہماری ثقافت میں اپنی راہ ہموار کی۔ بلاشبہ اِن نئے خداﺅں میں سے سب سے مقبول، خود اپنی ذات تھی۔ 1970 کی دہائی کے بچے ”میں“ نسل کے نام سے مشہور ہوئے ۔ 1980 کی دہائی تک ، مغربی دنیا بہت سے نئے قوانین بنا چکی تھی ۔ مسیحی اخلاق سے باہر ایک نیا معاشرہ تشکیل پا چکا تھا۔ قوموں کو بھول کی بیماری ڈال دی گئی تھی اور بہت سے لوگ تو اِس بات سے واقف بھی نہیں تھے کہ وہ کبھی کسی ایسی ثقافت کا حصہ تھے جو مسیحی ثقافت کہلاتی تھی۔ 1980 کی دہائی تک ، مغرب ایک جدید ترین معاشرہ بن چکا تھا ، جو کسی بھی مسیحی اقدار سے بالکل عاری تھا۔ انقلاب مکمل ہو چکا تھا۔
آج کی مغربی ثقافت کی زیادہ تر نوجوان نسل بائبل کے خدا کے خلاف بغاوت میں ہے ۔ لیکن اپنے ذہنوں میں، وہ خدا کی اُس نا سمجھ تصویر سے حقارت کرتے ہیں جو پیلاجین اور ایڈوپشن ازم کی بدعتوں نے بنادی ہے ۔ فٹزسائمنز ایلیسن نے اپنی کتاب The Cruelty of Heresy میں اِس بات کی نشاندہی کی ہے ، کہ زیادہ تر منکرِ عقائد لوگ جو مسیحی ایمان کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں وہ دراصل خدا کے بدعت بھرے تصور کی خلاف بغاوت میں ہیں۔ اسی وجہ سے اِس نسل کی بغاوت اپنے مکمل عروج تک پہچنی ہے ۔
جب ہم اکسیویں صدی میں داخل ہوتے ہیں ، تو علم الانجوم ، جادوٹونے ، پیگان ازم ، خونخوار بدعتی گروہ، تو عجیب رسومات پر عمل کرنے والے عجیب مذاہب پروان چڑھ رہے ہیں جیسے کہ ہم سترھویں صدی سے دیکھتے چلے آرہے ہیں ۔ دوسو سالوں تک ، ایڈوپشن ازم کے پیروکاروں کے رجحانات مغرب میں موجود مسیحی تقلید پسندی کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن چکے تھے ۔ لیکن آج کے روز، مسیحی کلیسیاء کو جنوسٹک اور ڈوسیٹک بدعتوں کے خطرناک بگاڑ سے بچنے کے لئے پہلے سے بھی زیادہ تیاری کرنے کی ضرورت ہے ۔
ذیل میں جدید مذہبی بدعتی گرہوں کے حوالے سے قاعدہ جات ہیں ۔ آپ کبھی بھی کسی ایسی چیز کے خلاف نبرد آزما نہیں ہو سکتے ہیں جس کی بابت آپ جانتے نہ ہوں۔ وقتوں کے نشانات کو جانیں اور اپنے آپ کو آرئین مذہبی بدعتی گروہ ، جنوسٹک ازم اور نئے دور کی تحریک سے متعلق تعلیم دیں۔ اپنے آپ کو اِس بات سے آگاہ کریں کہ نوجوان لوگ عوامی درسگاہوں اور کالج کی احاطہ جات میں کیا سیکھ رہے ہیں۔ دشمن اپنی فوج کی تیاری کر رہا ہے اور ابھی بھی وہ حملے کے لئے تیار ہے ۔ ابھی آپ کی باری ہے کہ تمام لوگوں کو جنگ کے لئے تیار کریں۔

جدید پیلاجین بدعتی گروہ
مغرب میں ہمیشہ سے ہی ایک مظبو ط پیلاجین رجحان موجود رہا ہے ۔ انسان مرکزیت کی بدعتیں اکثر اوقات روش خیالی یا انسانیت کے مذہب کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ کئی صدیوںسے، رومن کیتھولک ازم ، مشرقی تقلید پسندی، اور بہت سے پینتکوست کلیسیاءئیں کسی نہ کسی حد تک پیلاجین ازم کی کسی شکل میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
پہلی نظر میں، انسانیت مذہب کے طور پر منظر عام پر نہیں آتی ہے ، کیونکہ یہ یا توخدا کا انکار کرتی ہے یا پھر دنیا میں انسان کی کامیابی یا خوش میں خدا کو غیراہم ذات کے طور پر دیکھتی ہے ۔ لیکن انسانیت ایک مذہبی بدعتی گروہ اور ایک ایسی ثقافت ہے جو اُس انسانیت کا نتیجہ ہے جو مغرب میں دو سو سالوں تک غالب آئی رہی ۔ ڈی ازم ، ریشنل ازم ، نیچرل ازم ، فروڈین ازم ، مارکس ازم ، ڈاروان ازم ، نِہل ازم اور ایگزِس ٹینشل ازم تمام کے تمام انسانیت کے مذہب کے اظہار ہیں ۔ بنیا دی طور پر یہ پیلاجین ازم کی بدعتیں ہیں۔ یہ تمام اِس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ انسان یا تو انسانی ترقی ، سائنس ، سماجی تعمیر سازی ، انقلاب، نفسیات یا پھر فلسفے کے علم کی بدولت اپنی نجات کا کام خود کر سکتا ہے ۔ یہ سب اِس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ انسانی کاوشوں کے نتیجے میں ایک بہتر دنیا وجود میں آ سکتی ہے ۔
گوکہ انسانیت کو مذہب ماننے والوں کی عالمی نظریات سترھویں صدی کے شروع کے سالوں میں رائج ہو چکے تھے ، لیکن اب انسانیت مذہب کے طور پر ختم ہو رہی ہے ۔ 1990 کی دہائی میں ، ہم نے مارکسی کمیون ازم کو بھی ختم ہوتے دیکھا ہے ۔ ابھی ہم مغربی دنیا کے انسانیت کے مذہب کی آخری سانسیں دیکھ رہے ہیں ۔ کچھ لوگ ابھی بھی اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سائنس ایک مثالی دنیا بنانے کی اہلیت رکھتی ہے ۔ جان ایف۔ کینڈی جے آر کے جارج میگزین کے 1996 میں ایک سروے کے مطابق بہت کم لوگ ڈارون کے انقلابی نظریہ پر اُتنا یقین رکھتے ہیں جتنا کہ اِس نے اپنے ابتدائی ایام میں پذیرائی حاصل کی تھی ۔ ابھی جو ہم مغرب میں دیکھ رہے ہیں وہ معقولیت، مادہ پرستی اور جدیدیت کے خلاف ایک رد عمل ہے ۔ نِہل ازم اور ایگزسٹینشل ازم نے پوسٹ ماڈرن ازم کی راہ ہموار کی ، جوبنیادی طور ر وہ فلسفہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ، ”ہم کسی کام کو شروع کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں ۔ باقی کیا بچا ہے؟ یہ سب کچھ ہمارے سوچنے سے قبل ہی مکمل ہو چکا ہے ۔“
آج کے روز زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے مسائل کے روحانی حل کے لئے کھوج کرنے پر رضا مند ہیں ۔ اِس لئے، ہم نے مشرق میں زیادہ دلکشی کا مشاہد ہ کیا ہے اور آرئین اور جنوسٹک بدعتی گروہوں کا وجود مغربی معقولیت کا سوالات کے جوابات دینے میں ناکامی کے باعث ہے ۔

جدید آرئین بدعتی گروہ۔
بہت سے آرئین بدعتی گروہ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسوی صدی کے شروع میں ایک بار پھر سے اُبھر کر منظر عام پر آئے ۔ آرئین ازم کی جڑیں شیطان کے اُس مکار سوال سے جا ملتی ہیں جو اُس نے خدا کے اختیار سے متعلق کیا تھا۔ ”کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟“ (پیدایش 3 باب 1 آیت)۔ آرئین بدعتی گروہ خدا کے کلام کے اختیار اور کیتھولک ایمان کی تقلید پسندی کے بڑی اہم عقائد پر سوال اُٹھانے سے شروع ہوتے ہیں ۔ خدا کے کلام کی ماہرانہ داﺅ پیچ کے ساتھ ، شیطان نے اُسی پرانے جھوٹ اعانت کی ہے ، اور سچائی کی کھوج کرنے والے عہد جدید کے لوگوں کو یہ کہا کہ، ” تم ہرگز نہ مروگے۔ بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاﺅ گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاﺅ گے “ (پیداےش 3 باب 4 اور 5 آیت)۔ شیطان ہمیشہ خدا کے کلام میں ایسے ہی تضاد پیدا کرتا ہے ، یعنی غیر پیشمان گناہگاروں کے لئے ابدی عذاب کی سزا کا انکار کرنے کی بدولت اور اُن لوگوں کے ساتھ خدا کی مانند بننے کے وعدہ کرنے کی بدولت جو سچائی سے دور چلے جاتے ہیں ۔
بہت سے کامیاب مذہبی بدعتی گروہ جنہوں نے آرئین ازم اور مارمن ازم ، مسیحی سائنس، یہواہ وٹنس ، دی وے اور یونیفیکیش کلیسیاء کی اعانت کی ہے ۔ اِ ن میں سے ہر ایک بدعتی گروہ یسوع مسیح کی سچی کلیسیاء ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔ ہر ایک بائبل استعمال کرتا ہے ، اور یسوع کو ”خدا کا بیٹا “ کہتا ہے ۔ تاہم اِ ن میں سے ہر ایک کا ایک مختصر جائزہ اِس بات کو ثابت کرتا ہے کہ گوکہ آرئین بدعتی گروہ جنوسٹک ازم اور ایڈوپشن ازم کی عناصر کو اپنے اندر شامل کرتے ہیں ، لیکن اِس کے باوجود یسوع مسیح کی کامل ذات ، صلیب پر کفارے کے کام کے لئے اُس کی موت، اور صرف مسیح میں ہی ایمان کی بدولت نجات کا انکار کرتے ہیں ۔ یہ بدعتی گروہ مسیح کی آمد ثانی اور ابدی عدالت کے متعلق تقلید پسندی کا نظریہ بھی رکھتے ہیں۔
مارمن ازم ، (یسوع مسیح کے بعد کے ایام کے دنوں کے مقدسین کی کلیسیاء ، جس کے بانی جوزف سمتھ اور برگ ہام ینگ ہیں ) کے پیروکار بائبل ہر خدا کے کلام کے طور پر ایمان رکھتے ہیں بشرطیکہ اِ س ترجمہ درست کیا گیا ہو، وہ مارمن کی کتاب پر بھی خدا کے کلام کے طور پر ایمان رکھتے ہیں ۔ وہ یسوع کی خداہونے کے نظریہ پر ایمان رکھتے ہیں ، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ، ”بعد کے ایام کے مقدسین“ کی ربویت
پر بھی ایمان رکھتے ہیں (یعنی کہ مارمن مقدسین )۔ اُن تمام ”خدا کے بیٹوں “ میں سے یسوع پہلوٹھا تھا جسے ”خدا کے ظہور“ کے طور پر پہچانا جا سکتا ہے ۔ یسوع مسیح کی سچی شناخت خدا باپ کے طور پر نہیں ہے ، بلکہ روحوں کا وہ باپ جنہوں نے اِس زمین پر جسم کے طور پر جنم لیا ؛ اور وہ اُن میں سے ایک ہے۔ وہ بالکل اُسی طرح سے ایک اور بیٹا ہے جیسے کہ ”بعد کے ایام کے تمام مقدسین “ ایلوہیم کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔
گناہ کے فدیہ کے موضوع پر ، جوزف سمتھ نے اِس بات کی تعلیم دی کچھ ایسے گناہ بھی موجود ہیں جو اتنے سنگین ہیں کہ جو ایسے گناہ کرتے ہیں وہ مسیح کے کفارے کی قدرت سے پرے جاتے ہیں ۔ اگر ”یہ سنگین گناہ“ سر زد ہوتے ہیں تو پھر مسیح کا خوان اُنہیں اُن کے گناہوں سے پاک نہیں کرے گا خواہ وہ بھی توبہ بھی کرلیں ۔ اِس لئے واحد اُمید اُن کا اپناخود کا خون بہانا ہے ، جہاں تک مکمن ہو ، اپنے لئے اپنا خون خود بہانا ہے ۔
نجات کی صورت حال میں ، مارمن ازم اِس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ مسیح کے فدیہ دینے اور شریعت کی فرمانبرداری کرنے اور انجیل کے دساتیر کی بدولت، ساری نسل انسانی نجات پاسکتی ہے ۔ مارمن پیروکار اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انجیل کے دساتیر : (1) خداوند یسوع مسیح پر ایمان؛ (2) توبہ ؛ (3) گناہوں کی معافی کے لئے پانی کا بپتسمہ؛ (4) روح پاک کی بخشش حاصل کرنے کے لئے ہاتھوں کا رکھا جانا ہیں ۔
غیرن ایمانداروں کی آخری صورت حال پر ، مارمن ازم کی تعلیم کسی حد تک پیچیدہ ہے ۔ سب سے پہلے، ساری کی ساری فانی تخلیق غیر فانی صورت حال میں تبدیل ہو جائے گی ۔ یہ تبدیلی ساری نسل انسانی کے لئے واقع ہو گی ، بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ جانوروں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا ۔ سب مخلوق روحانی ہیں اور اُنہیں نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ دوسرے طور پر یہ کہ، ”ہلاکت کے فرزند“ و ہ محض انسانی اراکین ہیں ، اور انہیں انسانی نسل کا ایک چھوٹا حصہ تصور کیا جاتا ہے ۔ اُنہیں مستقل طور پر جہنم میں ڈالا جائے گا اورابدیت کے لئے شیطان اور اُسے کے فرشتوںکے ساتھ اکھٹے خدا کا قہر برداشت کریں گے۔ تیسرا یہ کہ ”آسمان کی بادشاہت“ راستبازوں کے لئے تیار کی جاتی ہے ، اُن لوگوں کے لئے جو خداوند کے احکام کے ساتھ وفادار رہے ہیں ، اور جنہیں اُن کے تمام گناہوں سے دھو دیا گیا ہے ۔ چوتھے نمبر پر یہ کہ، ”زمینی بادشاہت“ زمین کے علاوہ کسی کرہءارض پر قائم کی جائے گی (شاید کسی دوسرے سیارے پر) ۔ اِس بادشاہت میں درج ذیل چیزیں شامل ہوں گی : (1) وہ جواب دہ لوگ جو شریعت پر عمل کئے گئے بغیر مرے؛ (2) وہ لوگ جو اِس زندگی میں انجیل کا انکار کرتے ہیں مگر روحانی دنیا میں توبہ کرتے ہیں اور اِسے قبول کرتے ہیں ؛ (3) اِس زمین کے وہ قابل عزت لوگ جو آدمیوں کی مکاری کی وجہ سے اندھے ہیں اور جو انجیل کی شرےیعت کا انکار رکرتے اور اِس کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں ؛ (4) بعد کے ایام کے مقدسین کے یسوع مسیح کی کلیسیاء کے اراکین جو راستبازی اور کلیسیاء کے لئے اپنی جانثاری میں سرگرم ہیں ۔
مسیحی سائنس (مسیح سائنسدان کی کلیسیاء، جس کے بانی مارک بیکر ایڈی تھا) ۔

مسیحی سائنس(Church of Christ Scientistجس کی بنیاد میری بیکر ایڈی نے ڈالی )، تعلیم دیتی ہے کہ بائبل واحد اختیار ہے اور یہ کہ بائبل ”سائنسی مکاشفہ“ فراہم کرتی ہے۔میری بیکر ایڈی کی سائنس اور صحت کلام کی کنجی کے ساتھ ”اس دور کے لئے سچائی کی آواز“ تصور کی جاتی ہے۔یہ تعلیم دیتی ہے کہ ”روحانی مسیح“ لا خطا تھام مگر یہ Adoptionist کے نظرے کو قائم کرتی ہے۔کہ یسوع ایک نیک انسان تھا نہ کہ مسیح تھا۔ بیماروں اور گناہگاروں کا شفا دینے سے یسوع ہمارے لئے ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے ”الٰہی اصول“ اور ”مسیح روح“ کی پیروی کیسے کرنی ہے۔ مسیح ”مثالی سچائی“ ہے، جو مسیحی سائنس کے ذریعے بیماریوں اور گناہوں سے شفا دینے آتا ہے، اور جو تمام قدرت خدا کو منسوب کرتا ہے۔ یسوع انسانی شخصیت ہے اور مسیح الٰہی تصور ہے۔ لہٰذہ یسوع مسیح کی ثنوت ہے۔ وہ ”خدا کا روحانی یا سچا تصور ہے“۔

کفارے سے متعلق، میری بیکر ایڈی نے تعلیم دی کہ نجات سائی کےلئے ذہنی رضامندی تھی۔ حقیقی کفارہ مسیح کی زندگی کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ کہ خدا کا قہر اس کے محبوب بیٹے پر کھل کر ظاہر ہونا چاہئے یا یہ کہ خدا کو اپنا عدل پورا کرنے کےلئے اپنا رحم دکھانے کےلئے انسانی خون کی ضرورت تھی، یہ سب ”الٰہی طور پر غیر فطری “سمجھا گیا تھا۔ مسیح کی قربانی گناہ کا کفارہ ادا کرنے کےلئے غیر موزوں تھی۔ ایڈی کے مطابق، ”یسوع کا ظاہری خون جب وہ گناہوں کی پاکیزگی کےلئے صلیب پر بہایا گیا تو موثر نہ تھا ، بہ نسبت اس کے جب وہ خون اس کی رگوں میں تب دوڑتا تھا جب وہ باپ کا کام کرنے کےلئے جاتا تھا۔

مسیحی کےلئے نجات اس بات کا نکار ہے کہ گناہ کی کوئی حقیقت ہے اور اس بات کا کبھی اقرار نہ کرنا کہ گناہ سے کوئی عقلمدنی، قوت، درد یا خوشی مل سکتی ہے۔ انسان گناہ کے وجود سے نکار کرکے اس پر فتح پا سکتا ہے۔

مسیح کی آمدِ ثانی کے حوالے سے ، مسیحی سائنس تعلیم دیتی ہے کہ یہ واقعہ خدا کے اس تصور کی ترقی کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے جو مسیحی سائنس خود سکھاتی ہے۔ 1800کی دہائی میں دانی ایل 9باب کے ایک ترجمان نے 1866یا1867کو مسیح کی آمدثانی کا سال مقرر کیا ۔ میری بیکر ایڈی مانتی ہے کہ یہ اس کے ساتھ پور اتر رہا تھا یہ دو سال مسیحی سائنس کے حوالہ سے اس کی ”دریافت “کے سال تھے۔

غیر ایمانداروں کی آخری قیام گاہ کے حوالہ سے ، مسیحی سائنس تعلیم دیتی ہے کہ موت کے بعد انسان سزاءکے دور میں داخل ہوتا ہے۔ جو اس لافانیت کےلئے ضروری ہے۔ اس لئے بدی فانی ہے اور تباہ ہوجائے گی۔ اگر انسان کو موت کے بعد ترقی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ غلطی میں ہی رہنا چاہئے، تو وہ نتیجتاً خود ہلاکت پائے گا۔

یہواہ ویٹنیس (واچ ٹاور کا کتابچہ اور بائبل سوسائٹی) تعلیم دیتی ہے کہ بائبل وہ معیار ہے جس کی بدولت تمام مذاہب کی عدالت ہوتی ہے۔ یہواہ ویٹنیس کے پاس ان کا اپنا بائبل کا ترجمہ ہے، جو ان کے Ariansعقائد کی تصدیق کرتا ہے یہواہ ویٹنیس کے کچھ کتابچے Arius کا حوالہ بطور ایمان کے سچے اجداد کے طور پر دیتے ہیں۔ وہ تعلیم دیتے ہیں کہ یسوع روحانی شخص تھا ، جیسے کہ خدا روح ہے۔ یسوع”قادر ہے“ اگر چہ وہ خدا کی طرح قادرِ مطلق نہیں؛ یہ کہ یسوع خدا کا اکلوتا بیٹا تھا جسے خدا نے پیدا کیا۔ یسوع کو ”خدا کا اکلوتا بیٹا “ کہا جاتا تھا کیونکہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کوجنم دینے میں کسی کے ساتھ کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔یسوع”نادینی خدا کی شبیہ، تمام مخلوقات میں پہلوٹھا بیٹا “ ہے۔ یسوع خدا کی مخلوق میں پہلوٹھا، سب سے محبوب اور ہسندیدہ عہدے پر ہے۔ وہ تخلیق کا مصنف تو نہیں تھا مگر اس کے بعد کہ خدا اسے اپنے اکلوتے بیٹے کے طور پر خلق کرتا، خدا نے اسے باقی تمام تر مخلوقات کو خلق کرنے کے لئے اپنے کام کا حصہ دار بنایا۔

کفارے کے حوالے سے، وہ تعلیم دیتے ہیں کہ خدا کا بیٹا یہواہ خدا کےلئے پاک قربانی کے طور پر مرنے کو آیا تا کہ ایمان رکھنے والے انسانوں کے گناہ معاف ہوں اور وہ ہلاکت سے آزاد ہوں ، تاکہ وہ اس نئی راستباز دنیا میں ابدی زندگی حاصل کریں جسے خدا نے خلق کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

نجات کی شرائط کے حوالہ سے ، جو خدا یہواہ اور مسیح یسوع پر ایمان کے وسیلہ سے خود کو خدا کی مرضی کے تابع کر دیتے ہیں اور وہ اس تابعداری پر فرمانبرداری سے قائم رہتے ہیں انہیں ابدی زندگی کا نعام ملے گا۔

مسیح کی آمد ثانی کے حوالہ سے، یہواہ ویٹنیس ایک عام ”رجعت مسیح“ ک تعلیم دیتے ہیں جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یسوع راستے میں آرہا ہے یا اس نے زمین پر جسمانی طور پر آنے کا وعدہ کیا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے سے آچکا ہے اور اب یہاں ہے۔یسوع مسیح پہلے ہی واپس آچکا ہے، مگر دوبارہ انسانی شکل میں نہیں بلکہ ایک جلالی”روحانی شخص “کے طور پر۔ بعض یہواہ ایٹنیس والوں نے یہ تعلیم دی کہ مسیح روحانی طور پر 1914میں پہلی جنگ عظیم کے دوران واپس آیا تھا۔انہوں نے مکاشفہ چھ باب کو اسی واقعہ کو سمجھتے ہوئے ذہن میں رکھا۔

غیر ایمانداروں کی موت کے بعد آخری قیام گاہ کے حوالے سے، یہواہ ویٹنیس ابدی جہنم کے عقیدے پر ایمان نہیں رکھتے جہاں موت کے بعد بدکاروں کو ابدی سزاءملتی ہے۔ وہ تعلیم دیتے ہیں کہ جہنم مکمل طور پر غیر بائبلی،نامعقول، خدا کی محبت کے برعکس اور انصاف کےلئے نہایت نا مناسب ہے۔

The Way Internationalکلام کی کاملیت اور صداقت کی تعلیم دیتا ہے؛ جس کے بارے میں کلام کو ضرور بات کرنا چاہئے، اراکین کو خدا کے کلام کے مطابق اپنے اعمال اور ایمان کو جوڑنا چاہئے۔ وہ تعلیم دیتے ہیں کہ یسوع مسیح خدا کا بیٹا تھا ، نہ کہ ”خدا بیٹا“ یا ”خود خدا “تھا۔ وہ تعلیم دیتے ہیں کہ یسوع وہ انسان ہے جو روح القدس کے وسیلہ سے حمل میں پڑا تھا، جس کی زندگی گناہ سے پاک تھی۔ وہ کامل قربانی تھا اور وہ نجات دہندہ بن گیا۔

کفارے کے بارے میں وہ تعلیم دیتے ہیں کہ مسیح کی صلیب پر موت یہ اشارہ نہیں کرتی کہ جو خدا کے ساتھ وہ یہ نہیں تھا۔باپ سے بیٹے کو الگ کرنا بیٹے کی اہمیت کو بالکل کم نہیں کرتا۔ بلکہ تثلیث کا عقیدہ خدا کو اس کی مثالی فضیلت سے جد کر دیتا ہے، اس کے علاوہ انسان کو غیر نجات یافتہ بنا دیتا ہے۔ اگر یسوع مسیح خدا ہے اور وہ خدا کابیٹا نہیں ، تو ہم نے ابھی نجات نہیں پائی۔

The Way تعلیم دیتا ہے کہ اس بات کا کہ کوئی شخص نئے سرے سے پیدا ہوا اور وہ روھ القدس کی طرف سے نجات کے تحائف سے بھر پو ر ہوا ، یہ واحدظاہری اور صوتی ثبوت ہے کہ وہ ایک غیر زبان یا غیر زبانوں میں بولتا ہے۔

The Unification Church (جس کا بانی ریورنڈ میئنگ مون تھا)، جسے ”مونیز“ بھی کہا جاتا ہے The Unification Church تعلیم دیتا ہے کہ جب تک ان کا ”مسیحی کلیسیا کے ساتھ مشن“ پورا نہیں ہو جاتا ، انہیں ”الٰہی اصول “ کی وضاحت کرنے کےلئے بائبل اسرعمال کرنا ہوگی، ان کا ماننا ہے کہ اس کے بعد کہ وہ ”مسیحی کلیسیا کی میراث پائیں“ وہ بائبل کے بغیر تعلیم دینے کےلئے آزاد ہو ں گے، ان کا ماننا ہے کہ ایک بہت بڑے کاشفہ کے ساتھ بائبل کی اہمیت بڑھ جائے گی جو آنے والا ہے۔ وہ تعلیم دیتے ہیں کہ تاریخی طور پر، یسوع مسیحا انسان کو بچانے کےلئے آدم کی جگہ آیا؛ کہ وہ خود خدا نہیں تھا،؛ بلکہ یسوع مسیح ہماری مانند تھ انسان سے بالکل مختلف نہیں تھا سوائے اس حقیقت کے کہ وہ موروثی گناہ کے بغیر پیدا ہوا۔

کفارے کے حوالے سے وہ تعلیم دیتے ہیں کہ یسوع اپنے مشن میں اس لئے ناکام ہوا کیونکہ وہ اپنی شادی سے قبل مصلوب ہوگیا۔یہ خدا کا پہلے سے مخصوص کردہ ارادہ بالکل نہیں تھا کہ وہ مر جاتا۔ صلیب اس زمین پر ہمارے موروثی گناہ کو ختم کرتے ہوئے آسمان کی بادشاہی قائم کرنے میں ناکام رہی۔

نجات کے بارے میں The Unification Church تعلیم دیتا ہے کہ یسوع کی صلیبی موت کے بعد، خدا انسانوں کی روحں کا دعویٰ کر سکتا تھا، مگر جسم کو نجات نہیں دے سکتا تھا۔ یسوع جسمانی طور پر انسان کو نجات دینے میں ناکام تھا۔ اس لئے، آمد ثانی پر ایک اور مسیحا کی آمد سے جسمانی نجات مکمل ہوگی۔

مسیح کی آمد ثانی کے بارے میں ، The Unification Church تعلیم دیتا ہے کہ آمد ثانی کا خداوند زمین پر بطور بادشاہوں کے بادشاہ پیدا ہوگا۔ وہ خود یسوع کی واپسی پر ایمان نہیں رکھتے، بلکہ ایک مسیحا پر، جو انسان کوریا میں پیدا ہوگا۔ وہ پوری دنیا سے مسیحا ہونے کی تصدیق پائے گا۔

موت کے بعد غیر ایمانداروں کی آخری قیام گاہ کے حوالے سے، The Unification Church تعلیم دیتی ہے کہ ان روحوں کی زندگی جو پہلے زندہ تھے ریورنڈ مون کے پیروکاروں کے ساتھ منسلک ہوگی اور وہ الٰہی روحوں میں ترقی پائے گی۔ بدکار لوگ اسی قسم کے دوبارہ جنم لینے کے مرحلے سے گزریں گے۔اس مرحلہ میں ”کرما“ کا قانون کام کرے گا۔ اگر کوئی روحوں کی دنیا میں بغیر کفارہ ادا کئے آئے گا، انہیں ان لوگوں کا کفارہ ادا کرنے کےلئے کام کرنا ہوگا جن کے خلاف انہوں نے گناہ کیا۔

مسلک پرست Ariansکی گواہی کےلئے چند ہدایات:

مسلک پرست Ariansکے حوالے سے کسی مسیحی کےلئے یہ کافی نہیں کہ وہ بدعت کو سمجھے اور قدامت پسندی کی حمایت کرنے کے قابل ہو۔ یہ بھی ضرری ہے کہ وہ ان معاملات پر اس انداز سے گفتگو کرنے کے قابل ہو جس سے دوسرا شخص سچائی سے آشنا ہو سکے۔ درج ذیل ہدایات خاص توجہ کی حامل پائی گئی ہیں:

1 دوسرے شخص کے ساتھ احترام اور محبت کا سلوک کریں۔ مسلک پرست اراکین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے غلطیوں میں سے جو عام غلطی پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں شکست دئیے جانے والے دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ جس کو شکست دینا ضروری ہے وہ خود بدعت ہے نہ کہ اس کا حمایتی(2کرنتھیوں10باب3تا5آیت)۔ مسلک پرستی میں شامل شخس کو بدعت سے بچایا جانا چاہئے۔جیسے کہ ”آگ سے جھپٹ کر نکالا گیا ہو“(یہودہ 22اور23آیت)۔ یہ رونما ہونے کےلئے کسی شخص کےلئے احترام اور محبت کا مخلص رویہ ضروری ہے۔ گرم جوشی کی گفتگو اور کسی قسم کی گالی گلوچ والے مباحثے سے پرہیز کریں۔

2 بنیادی عقائد پر توجہ مرکوز کریں ۔ توجہ کا مرکز کلام کے بنیادی عقائد اور یہ کہ کیسے مسلک پرستی کی تعلیم ان کا انکار کرتی ہے ہونا چاہئے۔مسلک پرستوں کی بہت سی معلومات سے پرہیز کریں۔ وہ دلچسپ معلوم ہو گی، مگر وہ کلام کے بنیادی عقائد سے توجہ ہٹانے کا کامکرتی ہیں۔ مسلک پرستوں کی تاریخ اور بانی پر حملہ کرنے سے پر ہیز کریں۔ اس قسم کی گفتگو مغالطہ آمیز ہوتی ہے: ان کے پیروکاروں ک رویہ نہ تو مسلک پرستی کے عقائد کی تصدیق کرتا ہے نہ ہی تحریف کرتا ہے۔ مسیحت اس قسم کے حملوں کا شکار ہوگی، کیونکہ کوئی تجربہ کار مسلک پرست اس طرف اشارہ کرنے میں تیز ہوگا۔

3 بنیادی عقائد پر مسلک پرستوں کے خیالات کے حولے سے خاص اور دوہائے جانے والے سوالات پوچھنے کےلئے تیار ہوں۔ چند مسلک پرست اپنے لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ وہ عقیدے کے مضبوظ حصوں کو بحث میں نہ لائیں۔ ج ایسا معاملہ ہو تو، ایک مسیحی شخص کو اس پر اصرار کرنا چاہئے کہ سوال کا واضح جواب دیا جائے۔

4 بائبل کی تشریحات کے طریقہ کار پر گفتگو کرنے کےلئے تیار رہیں۔ مسلک پرست بائبل کے ان حوالہ جات سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں جو ان کے عقیدے کے خلاف ہوتے ہیں یا ان کی طرف داری کرتے ہیں۔ اس حقیقت کی وجہ سے گفتگو کا مرکز پیش کئے گئے حوالہ جات کی تشریح ہوگا ۔ اس مسیحی کو ان حوالہ جات کی تشریح کرنے کے قابل ہونا چاہئے جو بنیادی عقائد کو محفوظ کرتے ہیں، مسلک پرستوں کی استعمال کردہ حوالہ جات کی غلط تشریح کو رد کرنا چاہئے۔

5 اگر کوئی شخص بہت زیادہ پابند ہے، جو بشارتی کاموں سے منسلک ہو، تو اس کے مواقع بہت کم ہیں کہ ایک گفتگو میںہی اسکی سوچ میں کوئی تبدیلی نظر آئے۔ عام طور پر ایسی صورت حال میں بہتر یہ ہے کہ مسیحی صورت حال کا مضبوط اور واضح بچاﺅ پیش کیا جائے۔ اگر پیش کئے گئے حوالہ جات کے ساتھ ایمانداری کے ساتھ پیش آنے کا کوئی ارادہ نہ ہو، تو بہتر ہے کہ گفتگو کو شائستگی کے ساتھ دوستانہ ماحول میں ختم کیا جائے۔

اگر کوئی شخص مسلک پرستی کی دوسری نسل کا رکن ہے، تو شاید وضاحت کی زیادہ حد نظر آئے ۔ اس شخص پر خدا کے فضل کا زور ڈالیں۔

اگر کوئی شخص مسلک پرستی کا رکن نہیں یا نیا رکن ہے تو اکثر وضاحت کی زیادہ حڈ موجود ہوتی ہے۔ وہ شخص روحانی چیزوں اور بائبل میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ شاید اس نے حفاظر کے بغیر بدعتی عقائد یا قدامت پسندی کے عقائد کا سرسری مطالعہ کیا ہو۔ اس شخص پر مسیح کی ولوہیت اور خدا کے فضل کا دباﺅ ڈالیں اور اس پر ظاہر کریں کہ کس طرح مسلک پرستی نے حوالہ جات کا غلط ترجمہ کیا کہ اس کا اپنا مقام برقرار رہ سکے۔

جدید باطنی مسلک پرستی:

باطن پرستی کی بنیاد Eastern Monist مذاہب میں پائی جاتی ہے جو تعلیم دیتے ہیں کہ”سب کچھ خدا“ ہے۔ یہ فریب باغ عدن میں سانپ کے عورت کے ساتھ کئے گئے وعدہ میں پایا جاسکتا ہے، ”تمہاری آنکھں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند ہو جاﺅ گے“(پیدائش3 باب 5 آیت)۔ایسٹرن مسٹیسزم موت کے بعد خدا کی مانند شعور کے حصول اور روشن خیالی کا وعدہ کرتا ہے۔

یہاں ہمارے مشرقی مذاہب کے ہزار اجزا پائے جاتے ہیں جو Monismکی کچھ تعلیمات دیتے ہیں، جیسے کہ ہندو مت، بدھ مت، تاﺅازم،شنتو ازم، انیمی ازم ان تمام مذاہب کو پورا کرنے کےلئے بلکل جگہ نہیں ہے، جن کےلئے ”مسلک پرستی“ کی اصطلاح موزوں نہیں بلکہ ی مشرق میں لاکھوں پیروکاروں کے ساتھ ”دنیا کے مذاہب ‘ ‘ ہیں۔اس کی بجائے یہاں جدید Monistمسلک پرستوں کی ایک مختصر فہرست ہے جنہوں نے مغرب کو بیسویں صدی کے دوران بہت معروف بنا دیا۔

بہائی عقیدہ: واحد خدا پرست اسلام سے فروغ پایا، مگر جلد ہی ایک Monistic مذہب کے اتحادی فلسفے کی طرف راغب ہوگیا۔ بہائی کا نام اسلام کے ایک فرقے شیہ کے ایک پیرورکار بہااللہ کی وجہ سے پڑا، جو خدا کا ”مخرج “ ہونے کا دعویٰ کرتا تھا۔بہا اللہ کا مقصد خدا کی وحدت کو فروغ دینا تھا۔ وہ تمام لوگوں کی خصوصیات کا قائل تھا، اور وہ مذہبی، نسلی، قومی امتیازات کو ایک طرف رکھنے کا قائل تھا جو کسی جنگ کی وجہ بننے کے اصول تھے۔ بہائی اتحادکا مذہب ہے جو یہ تعلیم دیتا ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب سب سے بڑے ایک ہی مذہب میں مرتب ہوتے ہیں۔

بہااللہ نے بہت سی کتب تحریری کیں جو وہ دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن کے حتمی اختیار کو تبدیل کرتی ہیں،بالکل ایسے ہی جیسے کی مسلمان مانتے ہیں کہ قرآن مسیحیوں کی بائبل سے اعلیٰ ہے۔یہ اور ”خدا کے مخرج“ ہونے کا دعویٰ اسے فارس کے مسلمان اختیارات کے خلاف تصادم پر لے آیا۔اس نے اپنی زیادہ تر زندگی جلا طنی میں گزاری۔ اس نے تمام تر مذاہب کو متحد ہونے کی دعوت دی۔کیونکہ ہر مذہب میں کچھ سچائی پائی ہے، یہ اس ئے کیونکہ تمام تر انبیا ایک ہی حقیقت جو بہایہ کی نمائندگی کرتا ہے، کی گواہی دیتے ہیں۔ ان کے مذہ کے بارے میں ارتقائی نظریہ والے عنصر کی وجہ سے بہائی یقین رکھتے تھے کہ دنیا کے مذاہب کا ہر یک بانی خدا کا مخرج ہے اور ان میں سے بہا اللہ سب سے نیا ہے۔اس لئے وہ مانتے تھے کہ در±سل وہ ایک ہی مقصد اور تعلیم کےلئے متحد تھے۔ اس لئے، بہائی مشرقی مذاہب کی مانند ہے جو تعلیم دیتے ہیں کہ ”سب کچھ ایک ہی ہے۔“

تاہمEastern Monismکے برعکس، بہائی ایمان بنیادی طور پر عقلیت پسند تھا نہ کہ متصوفانہ تھا۔ایسے عقائد کو قبول کرنا جو انسان کے لئے مشکل ہیں انہیں دقیانوسی اور سچے مذاہب نہیں کہا جاسکتا۔بہائی، تثلیث ، مسیح کے جی اٹھنے ، جنت اور جہنم کے بائبلی عقائد کو تمثیلاً بیان کرتے ہیں۔ وہ یہ مانتے ہیں کہ خدا کسی کا ذاتی نہیں او ر وہ غیر آشنا ہے۔ بہائی اس بات کو سمجھنے میں ناکام ہیں کہ انسان اس کے ساتھ رفاقت سے نکلا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ، وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان خدا کے احکامات کی پابندی کرنے کے قابل ہے۔ یہ نہ مانتے ہوئے کہ مسائل اس کے دل سے ہیںنہ کہ اس کی سوچ سے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم ہی اس کا حتمی جواب ہے۔ قریباً پانچ لاکھ سے زیادہ ان کے اراکین ہیں۔

Eckankar ۔ جہیں ”روشنی اور آواز “ کا مذہب بھی کہا جاتا ہے ۔ Eckankar کی بنیاد Paducah, Kentucky USA کے پال ٹویچل نے 1965میں رکھی۔ Eckankar بنیادی طور پر ہندﺅں کا ایک فرہ ہے۔ ٹویچل نے Eckankar کا مطالعہ ہندوستان اور ملائشیا کے اساتذہ سے کیا۔ اس کی خود کار تبلیغ سے، ٹویچل کو خدا کا متجسد تصور کیا جاتا تھا۔ قانونی کلام Shriyal Ki Sugmadہے، مگر Eckankar عقیدے کے حوالے سے ابتدائی تحریریں موجودہEck استاد، ہیرلڈ کلیمپ کی طرف سے جاری کی گئیں؛ دیگر خاص کب جو پال ٹویچل کی طرف سے اختیار جاری کیا گیا ان میں ”The Key to Secret Words of Eckankar “اور ”Eckankar کا تعارف “شامل ہیں۔

Eckankar، جس کا مطلب خدا کے ساتھ ”کام کرنے والے“، Sugmad نامی دیوتا پر ایمان رکھتے تھے۔جو نہ تو نر تھا اور نہ مادہ تھا۔ تمام تر Eckankar کے شاگرد Sugmadکے دل سے منسلک تھے۔ یہ رجحان خود کو دو طرح سے ظاہر کرتا ہے،”اندرونی روشنی“ یا ”اندرونی آواز“۔ Eckists مانتے ہیں کہ جسم اندرونی روح سے زیادہ پاک ہے اور الگ بھی ہے، جس کا نہ کوئی آغاذ ہے اور ہ کوئی آخر ہے۔ ایک مرحلے کے باعث جسے”روح کا سفر“ کہا جاتا ہے، ایک شخص زندگی کے دیگر مقامات کو دریافت کر سکتا ہے۔ Sugmadدیوتا تک پہنچنے کےلئے ایک روح کو بارہ مقامات سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔

ہندو روایات پر بنیاد رکھتے ہوئے، Eckankar کرما کے نظریے کی مانند ہی تعلیم دیتا ہے۔ یہ ان پانچوں خصلتوں کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے ہے جو برے کرما کو فروغ دیتے ہیں(غصہ، لالچ،شہوت، جسمانی دنیا کے ساتھ تعلق،اور غرور)۔ ان کا دوبارہ جنم کا تمام تر نظریہ اس ”قیمت“ پر بنیاد رکھتا ہے جو آپ نے موجودہ زندگی میں کمایا، نگر اس ک کفارہ صرف اگلی زندگی میں ہو سکتا ہے۔ Eckankar کو اس کے ماننے والے بہترین تصور کرتے ہیں، مگر خداتک پہنچنے کا واحد ذریعہ اسے نہیں مانتے۔ کیونکہ مسیحت ایک سادہ متبادل راستہ ہے۔ مسیحی اور دیگر لوگ Eckankar میں اپنے ایمان کا شتہارکئے بنا شامل ہو سکتے ہیں۔ امریکہ میں 164Eckankar سینٹر ہیں اور پوری دنیا میں 367ہیں، جو ایک سو تیس سے زائد ممالک میں 50,000اراکین پر مشتمل ہیں۔

ہرے کرشنا۔ انٹر نیشنل سوسائٹی فور کرشنا کونشیئس (ISKCON) کلکتہ کے سریلہ پربھو پادا نے جس کی ، جولائی1966میں بنیاد ڈالی۔ سریلہ پربھو پادا کے استاد نے اسے مائل کیا تھا کہ وہ اپنی زندگی ہندو کلام کے لئے وقف کرے۔بھارت میں تعلیم دینے اور مطالعہ کرنے کے کئی سالوں بعد وہ امریکہ آیا۔ اس نے اپنے عظوں سے، باہر مجالس منعقد کرنے سے اور پھر جولائی 1966میں ASKCON قائم کرنے سے اپنے پیروکار بڑھائے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی تعلیمات ساری دنیا میں پھیلیں، پس اس نے اپنی تعلیمات کو دوردراز تک پھیلانے کےلئے بہت سفر کیا۔

ہرے کرشنا کے مقدس ادب میں ہندو ویداس ، بھاگا واد گیتا اور وہ تام کتب شامل ہیں جو سریلہ پربھوپادا نے تحریر کیں ، جن میں بھاگاواد گیتا ایسے ہی شامل ہے جیسے کہ وہ ہے۔ ہرے کرشنا کا خاص ایمان یہ ہے کہ ہندو دیوتا”کرشنا“ سب سے بڑا رام یا ”سب سے بڑی ابدی خوشی “ ہے۔ جب کرشنا کا منتر پڑھا جاتا ہے، تو یہ کسی کو کرشنا لے ساتھ معروف کرنے کےلئے کیا جاتا ہے۔ یہ منتر دیوتا کا نام دوہرانا ہے:” ہرے کرشنا ہرے کرشنا کرشنا کرشنا ہرے کرشنا ہرے ہرے ہرے رام ہرے رام رم رام ہرے ہرے“۔

ہرے کرشنا کا ایک اور عقیدہ دوبارہ جنم لینا ہے۔ وہ جسم اور روح کی ثنویت پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ موت کو ایک تبدیلی مانتے ہیں نہ کہ اختتام۔ جیسے کوئی شخص موجودہ زندگی میں کام کرے گا وہ اس بات کی ترجمانی کرے گا کہ وہ اگلی زندگی کے دائرے میں اوپر یا نیچے یا بالکل باہر ہوگا۔ جہنم ان لوگوں کا عارضی مقام ہے جنہوں نے اس زمین پر رہتے ہوئے بہت زیادہ گناہ کئے۔ان گناہوں میں گوشت خوری، نشہ بازی، ناجائز جنس پرستی، اور جوئے بازی شامل ہیں۔ وہ ایک سخت سبزی خوری کی طرز زندگی گزارتے ہیں۔

یہاں ہرے کرشنا کی بہت سی مختلف خصوصیات ہیں جو اسے روایتی ہندومت سے الگ بنا دیتی ہیں۔ ہرے کرشنا یہ مانتے ہیں کہ کرشنا سب سے بڑا دیوتا ہے، جب کہ ہندو مت تعلیم دیتا ہے کہ کرشنا وشنو کو آٹھواں روپ یا جنم ہے۔ یسوع مسیح کو کرشنا کا براہ راست نمائدہ مانا جاتا ہے۔ ہرے کرشنا کے لوگوں کے لئے ۔ کرشنا کی پیروی کرنے کے واسطے ہر کسی کو ایک روحانی استاد کی ضرورت ہے۔ یہ استاد کیتانیا گروپ سے تعلیم یافتہ ہونا چاہئے۔ یہاں انکے خاص اراکین 300ہیں اور 250,00امریکہ میں باقی پوری دنیا میں 8000اراکین ہیں۔

نیو ایج موومنٹ۔ جب ہم نیو ایج موومنٹ کی بات کرتے ہیں تو ہم ایک تنظیم کی بات نہیں کرتے۔ نیو ایج مومومنٹ مختلف معروف مذہب، اساتذہ، مصنفین کا ایک جال ہے جو ان عام عقائد کو مانتے ہیں جنکی بنیاد مشرقی متصوفیت اور Monism پر ہے۔ یہ نام ایک عام عقیدے سے اخذ ہوتا ہے کہ ”نیو ایج “ ہم پر طلوع ہو رہی ہے؛ جو امن اور روشن خیالی کا دور ہے۔ نیو ایج والے نجوم کو یہ صلاح دینے کےلئے استعمال کرتے ہیں کہ Pisces کا دور گزر رہا ہے(مثلاً مسیحی دور کی علامت مچھلی ہے) اور یہ کہ Aquariusکا نیا دور شروع ہو چکا ہے(مثلاً عالمگیریت کے دور کی علامت عورت ہے جس نے پانی اٹھایا ہوا ہے)۔

معروف ثقافتی معیار کے حوالے سے،نیو ایج حالیہ چند سالوں میں کافی زیادہ رونما ہوئی ہے،خاص طور پر جب سے اس کی ”سب سے بڑی مبشر“، ہالی ووڈ کی اداکارہ شرلی میکلن نے 1980کی دہائی میں مشرقی ٹیلی ویژن کے پرائم ٹائم میں اپنے پروگرام کا آغاذ کیا۔اس کے اثرات سے، ہم چیزوں کے وسیلہ سے بہت تیزی سے علم سیکھتے ہیں، جیسے کہ ”کرسٹل“ جو ” انرجی ڈوائس “ کےلئے استعمال ہوتے ہیں انہیں ان روحوں سے اخلاق اور سچائی سیکھنے کی مشق کہا جاتا ہے جو انسانوں میں بستے ہوئے بات کرتی ہیں۔

مگر نیو ایج لفظی طور پر ” نئی“ نہیں ہے۔ اس کے تمام تر بنیادی عقائد ہندو مت اور دیگر غیر قوموں کی روایات اور عقائد سے لئے گئے ہیں جو قدیم اور عامثقافتوں کی روایات تھے: مصری متھیالوجی، امریکن بھارتی مادہ پرستی، جادو اور افسون گری۔چونکہ نیو ایج ایک مشرقی تبدیلی ہے، اس لئے اس میں ایک مضبوط سائنسی اور عملی ذئقہ پایا جاتا ہے۔

نیو ایج کے فلسفے میں ، ” خدا“ کو ذاتی او محبت کرنے والی ہستی تصور نہیں کیا جاتا، بلکہ ایک ”غیر ذاتی “ قوت مانا جا تا ہے۔ سب لوگ دیوتا ہیں، جو پہلے سے الٰہی فطرت پا چکے ہیں، اگر وہ ا سکو سمجھیں تو۔مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم، بطور دیتا، اپنی اخلاقیات، عقائد اور حقائق خود بناتے ہیں۔ کوئی حتمی سچائی نہیں، کیونکہ ہر کوئی اپنا آپ ہی حتمی سچ ہے۔ ”خدا “ کے ساتھ بات چیت کرنا اپنی الٰہی خودی پر غور حوض کرنا ہے۔

اخلاقیات ذاتی بن جاتی ہے اور ہر کوئی اس کے مطابق اس کی تصدیق کرتا ہے جو اس کی اندرونی خودی خواہش کرتی ہے۔ دوبارہ جنم یا یہ عقیدہ کہ انسانی روحیں زندگی اور موت کے دائرہ میں قید ہوتی ہیں، براہ راست بدھ مت سے اخذ کئے جاتے ہیں اور عالمگیر طور پر نیو ایج موومنٹ میں قبول کئے جاتے ہیں۔طنززیہ طور پر، مشرقی مذاہب مین دوبارہجنم لینے کے عقیدے کو ہولناک تصور کیا جاتا ہے، جو ایک ایسی سزا ہے جس سے ہر کسی کو Nirvana کی حالت میں غور و حوض کرتے ہوئے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

نیو اج دنیا کے مذاہب کا ایک اور پرانا عقیدہ فروغ دیتے ہیں جسے روح پرستی کہتے ہیں: انسانی ذرائع سے روحوں کے ساتھ بات چیت کرنا۔ مگر سوال یہ ہے کہ ،”جب آپ کسی روح پر کام کرتے ہیں،کیا یہ حقیقتاً اچھا ہے یا برا؟“ اگر چہ دیگر مذاہب یہ سوال کرتے ہیں مگر نیو ایج اس کو نظر انداز کر کے یہ فرض کرتے ہیں کہ روحانی قوتیں اچھی ہی ہوتی ہیں۔

نیو ایج موومنٹ کی شہر ت میں ،ہم ایک ثقافت کی تبدیلی دیکھ رہے ہیں ، ایک ایسی تحریک جس نے بہت کامیابی کے ساتھ ثقافت کے ہر شعبے کو متاثر کیا: تعلیم، نفسیاتم معاشیات، فزکس، میڈیکل، آرٹ، کھیل، انٹر ٹینمنٹ، سیاست اور کاروبار وغیرہ۔ آزاد مسیحی کلیسیاﺅں میں نیو ایج کے فلسفے راستہ بنا رہے ہیں، ان مسیحیوں کی وجہ سے جو دوبارہ جنم کے عقائد کی تشہیر کر رہے ہیں۔ نیو ایج زندگی کےلئے روحانی بنیادیں مہیا کرتی ہے۔یہ سائنس اور نفسیات کو فروغ دیتی ہے ۔ یہ شادی کے بغیر جنسی ملاپ، زناکاری ہم جنس پرستی اور منشیات کے فروغ کو قبول کرتی ہے۔ اگر نیو ایج صرف گناہ کی بات کرے، بجائے کہ جہنم میں سزا کی، تو دوبارہ جنم کا عقیدہ ایک مثبت خیالی میں پیش ہو گا۔

روسی کروشیئن ازم: Asian Mystical Order Rosae Crucisدنیا میں بہت سے لوگوں کے کاموں کے باعث رونما ہوا، خاص طور پرفرانسیسی روسی کروشیئن سوسائٹیوں کی بدولت جو صدیوں سے موجود ہیں اور Masonicسوسائٹی سے ملتی جلتی ہیں۔ اس کا امریکی بانی ایچ سپینسر لیوس ہے جس نے یہ تحریک سین جو ع ، کیلیفورنیا میں 1915میں شروع کی۔لیوس نے کئی سالوں تک ایسے گروہ اکٹھے کرنے کےلئے سفر کیا جو مریکہ کے سکالروں کے ساتھ مل کر ”روسی کروشئین کے حقیقی کام “ کو متعار ف کروائیں۔ اس کام کی بنیاد قدیم مصری ”پوشیدہ بھیدوں“ اور ”جدید تعلیم“ پر تھی۔

روسی کروشئین آرڈر کی بہت سے کتب ہیں۔ The Rosier Digest ماہانہ شائع ہوتا ہے۔ سپینسر لیوس نے 19شمارے تحریر کئے جن میں Rosicrucian Mannualاور Symbolic Prophecy of the Great Pyramid شامل ہیں۔

اس آرڈر کے پیروکار ہفتہ وار اسباق سیکھتے ہیںنہیں”مونو گرافس “ کہا جاتا ہے اور وہ قدیم اور جدید علوم سیکھتے ہیں کہ روشن خیالی کو فروغ دیں(اپنے حواس خمسہ کو وسیع کریں اور اپنی گہری نفسیاتی حس کو جگائیں)۔ان اسباق کو نو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں ”ڈگریاں“ کہا جاتا ہے، اور ان کو مکمل کرنے میں پانچ سال لگتے ہیں۔ یہ علم سائنس، متصوفیت، فلسفے اور الٰہیات میں انسانی علم کے گہرے تجزیے کے ذریعے ذاتی بہتری پر زور دیتا ہے۔

ان کی رکنیت بہت مشکل ہے، مگر وہ قریباً 250000طالب علموں کا دعویٰ کرتے ہیں۔یہاں اور بہت سے روسی کرشئین کے گروہہیں جن میں The Ancient Rosae Crucis اور روسی کروشئین فیلوشپ شامل ہیں۔

سائیٹولوجی۔ اسے سائینٹولوجی کی کلیسیا بھی کہا جاتا ہے؛ سائینٹولوجی کا مطلب ہے، Scio، لاطینی سے، اور logos,یونانی سے”علم کے بارے میں جاننا“۔ 1954میں ایل رونالڈ ہابرڈ نے اس مذہب کی بنیاد ڈالی جو Tiden Nebrask USA سے سائنسی افسانہ نگار تھا۔ رونلڈ ہابرڈ نے مشرقی فلسفے کا خلاصہ کیا۔ 1950میں اس نے ”ڈائینیٹکس “ پر Astounding Science Fiction کے میگزین میں ایک کالم لکھا۔ اور اس کے بعد اس نے ڈائینیٹکس پر ایک کتاب تحریر کی:” ذہنی صحت کی جدید سائنس“۔ اس کے بعد 1950 میں اس نے ہابرڈ ڈائینیٹک ریسرچ فاﺅنڈیشن قائم کی۔ ڈائینیٹک سینٹر ملک کے بڑے بڑے شہروں میں قائم ہوئے۔ 1954میں سائینٹولوجی کی پہلی کلیسیا لوس اینجلس میں قائم ہوئی۔ اس کے نتیجہ میں یہ کلیسیا ساری دنیا میں پھیل گئی۔ اس کے بہت سے مراحل کے وسیلہ سے، رونلڈ ہابرڈ نے سائینٹولوجی کی ترقی کی ہدایات دیں۔

ڈائینیٹکس: ذہنی صحت کی جدید سائنس بنیادی طور پر سائینٹولوجی کا مقدس ادب ہے۔ مگر ہابرڈ کی تحریریں اور درج کردہ الفاظ جو اس نے کہے کلیسیا کے اراکین کے لئے مقدس حیثیت رکھتے ہیں۔ سائینٹولوجی کی کلیسیا ایک جدید مذہبی نظام ہے جس میں مشرقی متصوفیت ، فروڈئین کے نفسیاتی تجزیے اور ہابرڈ کے عالمگیر خیالات کے عناصر متحد ہوتے ہیں۔

لوگ سائینٹولوجی کے ”رکن“ تنظیم کے ایک مختلف انداز سے بن سکتے ہیں۔ رکنیت میں ڈائینیٹک لیکرچز کی مفت شمولیت اور کسی بھی تنظیم کی طرح کلیسیا کی عبادت میں شرکت کرنا شامل ہیں۔سائینٹولوجی کلیسیا کےلئے کوئی معیار قائم کرنا مشکل ہے۔سائینٹولوجی کلیسیا کا سائز قریبا آٹھ لاکھ اراکین ہیں۔ بے شک یہ تعداد بڑھ چکی ہے اور یقینا یہ اب لاکھوں میں ہوں گے۔

بلاشبہ، جدید دور میں سائینٹولوجی، سب سے زیادہ بدنام مذاہب میں سے ایک مذہبی تحریک ہے۔ سائینٹولوجی کی طرح چند دیگر گروہوں کو بھی ایسی ہی منفی شہرت ملی۔ اس منفی شہرت کا زیادہ تر حصہ میڈیا سے آیا۔ بہت سے گورنمنٹ ایجنسیوںنے چند دیگر گروپوں کی بھی غلط کاموں کی وجہ سے تحقیق کی اور انہیں ا سکا مرتکب ٹھہرایا(جن میں انٹرنل ریونیو سروس، فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اور ایف بی آئی شامل ہیں)۔ چند دیگر تحریکوں مین ایسے غصیلے اور تنقیدی پرانے اراکین ہیں جو سائینٹولوجی کی بد بھری دنیا کو خبردار کرتے ہیں۔

سائینٹولوجی کی منفی شہرت کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی بھی پالیسی بن گئی کہ جب گرپ یہ سمجھے کہ انہیں ڈرایا جا ہا ہے تو وہ اس کا مقابلہ کریں۔ رونلڈ ہابرڈ نے غضبناک بچاﺅ کے فلسفے کی تعلیم دی۔ سائینٹولوجسٹس یہ مانتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی بھی تحریک یاکام ان کے وجود کےلئے خطرہ ہیں اور ان کے خلاف فوری حملہ اور عمل کرنا موزوں ہے۔

تھیوسوفی۔ جو کہ یونانی زبان سے ”الٰہی حکمت “ کا لفظ ہے، 7نومبر 1875، روس میں ہیلن پیٹروانہ بلاواٹسکائی نے اس کی بنیاد رکھی۔ میڈیم بلاواٹسکائی یہ دعویٰ کرتی تھی کہ وہ ”ماہرین اورا ساتذہ“ کی قاصد ہے جو قدیم حکمت جانتی تھی۔ قدیم حکمت کو انسانی ہستی کے سب سے اہم سوالات کا جواب سمجھا جاتا ہے جیسے کہ،” ہم کیوں پیدا کئے گئے؟“ ”زندگی کیا ہے؟“ اور ” کیا موت کے بد کوئی زندگی ہے؟“ دوسرے لفظوں میں، اس نے مشرقی یورپ کے ان لوگوں کو فلسی خیالات دینے کی کوشش کی جو اس وقت فطرتی معاشرتی شورش کا تجربہ کر رہے تھے۔

تھیو سوفی کی تحریک کا مقصد ” رنگ، نسل، ذات، جنس اور عقیدے کے امتیاذ کے بغیر عالمگیر بھائی چارے کاایک مرکز قائم کرنا“تھا۔تھیوسوفی کا مقڈس قدب یہ ہے: مقدس عقائد، تھیوسوفی میں Monism کا نظریہ، یہ عقیدہ کہ ”سب کچھ واحد ہے اور واحد خدا ہے، پس خدا ہی سب کچھ ہے۔“ خدا غیر ذاتی قوت ہے، جو کہ مشرقی روایات سے ملتا جلتا عقیدہ ہے۔ تھیوسوفی مین دوبارہ جنم اور کرما کے نظریات بھی شامل ہیں۔ اس مذہب کے سب سے نا آشنا پہلو مقدس عقائد میں پایا جانے والا فلسفہ اور میڈیم بلاواٹسکائی کے دیگر ناول ہیں۔ اس کی تعلیمات کے بنیادی اصولوں میں ”زندگی کی واحدت، دائروں کا قانون اور فطرت کی سلطنتوں میں شعور“ شامل ہیں۔

دنیا میں بہت سی تھیو سوفیکل تنظیمیں ہیں۔ امریکہ میں تھیوسوفیکل سوسائٹی نے 5200راکین ک امریکہ مین اور پوری دنیا میں 34000 اراکین کی رپورٹ دیں ہیں۔ کیلیفورنیا میں ایک اور تھیوسوفیکل تنظیم ہے اس کے سائز کی روپرٹ نہیں دی گئی۔

میڈیم بلاواٹسکائی کی” سچائیوں“ اور اس کی خصوصیات کو سالوں سے مقابلوں کاسامنا ہے۔ انیسویں صدی میں اس کی بہت سی تعلیمات ناقابل فہم تھیں، تاہم، آج چند تعلیمات نے سکالروں اور سائنسدانوں سے تصدیق پائی ہے۔

Transcendental Meditation(ٹی ایم) کی بنیاد 1956میں اتر کاشی ، انڈیا، کے ماہا رشی مہیش یوگی نے ڈالی۔ ماہا رژی کا اصل نام مہیش پرساد ورما تھا۔ اس کی روحانی زندگی، گرو دیو، سوامی کرشن آند سرسوتی کی ہدایت میں بڑھی۔ گرو دیو نے مہارشی کو وہ وجدان سکھایا جو اس نے ہندوﺅں کی مقدس کتب سے حاصل کیا تھا۔ 1956میں (گرو دیو کی موت کے تین سال بعد) مہیش نے انڈیا کے مندروں کا تجربہ کرنے کی دعوت محسوس کی۔ واپس گھر کو جاتے ہوئے اسے ٹی ایم کا وجدان ملا جو بعد میں لیکچرز کا ایک سلسلہ بن گیا۔ پھر ان نے اپنا پیغام جنوب مشرقی ایشیا سے مغرب کی طرف پھیلانا شروع کیا۔

امتیکہ میں انڈین تعلیمات کی لہر دوسری جنگ عظیم کے بعد آئی۔ ٹی ایم ہندو مت کی سادہ سی شکل ہے جو جنوبیوں کےلئے لی گئی جو ہندو عقائد کو جاننے کےلئے ثقافتی پسمنظر کی کمی رکھتے تھے۔ ٹی ایم کو ہندو روایات سے خارج کر دیا گیا۔ مذہب کی بجائے سائنس کی بنیاد پر عبادات کرنے سے یہ مکمل ہوا۔ مہارشی یہ بحث کرتا ہے کہ ٹی ایم کوئی مذہبی روایت نہیں۔ مہارشی کا علم الا طبعیات میں پسمنظر اس بات کی تصدیق کےلئے استعمال ہوتا ہے۔

بھارت میں، ٹی ایم کو ہندو مت کا ایک فرقہ تصور کیا جاتا ہے؛ امریکہ مین یہ ایک مسلک پرستی ہے۔ رکنیت درج نہیں ہے، مگر یہ ہزاروں میں دس کے برابر ہیں۔ ٹی ایم 1960کی دہائی تک آہستہ آہستی بڑھتی گئی جو وہ وقت تھا جب 1970کی دہائی کے آغاز میں اس کے پیروکاروں نے ایک تحریک کا آغاز کیا ۔ کالج سرکٹ نے بھی ٹی ایم کےلئے ایک بہت بڑی بنیاد فراہم کی۔ 1984تک قریباً ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے ٹی ایم کورسز مکمل کئے، تاہم ان مین سے چند ایک ہی ہیں جو ٹی ایم کی تکنیکوں پر عمل کرتے ہیں۔کچھ وقت کےلئے ٹی ایم رک گئی، اور آج ایسی تحریک نے اس کو جاری کیا جو ” سائنسی معیاروں“ سے اس کی تکنیکوں کو موثر ثابت کرتے ہیں۔

ایک لحاظ سے اس کا کوئی مقدس ادب نہیں ہے کیونکہ اسے مذہب نہیں مانا جاتا، اس کے باوجود، Vedic کلام اور بھاگاواد گیتا اس مین شامل ہیں۔ ”ہستی اور آرٹ کی سائنس اور پتا انجلی کا یوگا سترا“ مہارشی مہیش یوگی کی کتاب ہے۔

اس وجدان میں ، ایک دن میں 15تا20منٹ تک انکھیں بند کر کے کسی پرسکون حالت میں بیٹھنا ہوتا ہے(ایک بار صبح ور ایک بار شام)۔ منتر کو پڑھتے ہوئے وجدان میں بیٹھا جاسکتا ہے۔ منتر ایک لفظ ہے، عام طور دیوتاﺅں کے نام یا ہندو کلام سے مختصر آیات۔ ہر شخص کو اس کی عمر اور جنس کے مطابق ایک موزوں منتر دیا جاتا ے جو ان کی عبادت یا پوجا کے مطابق ہو تا ہے، یہ منتر ان کے استاد سے ملتا ہے۔

ٹی ایم نے میڈیٹیشن کے حوالے سے بہت سے دعوے ٰ کئے۔ وجدان کی بدولت، گروپ کے اراکین ایک ترقی یافتہ شعور اور انسانی قوت کی توقع رکھتے ہیں تا کہ ان کی زندگی خوشگوار بنا سکے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ یہ میڈیٹیشن کا مرحلہ زندگی میں تبدیلی لانے، شعور کو بڑھانے، مجرموں کو سدھارنے، الکوحل اور منشیات کے عادی لوگوں کو ٹھیک کرنے، بیماریوں کو دور کرنے بہتر نفسیاتی صحت اور بہتر کاروبار کےلئے کیا جاتا ہے۔

ذین بدھ مت: جسے ” بدھ مت کا متصوفہ سکول “ بھی کہا جاتا ہے، چینی زبان میں ذین کا ترجمہ سنسکرت اصطلاح دھیانہ ستعمال کی جاتی ہے جس کا مطلب میڈیٹیشن ہے۔اس کے بانی کا تصور سدھارتا گوتم بدھ ہے، جو 500قبل از مسیح میں بدھ مت سکول کا اصل بانی تھا۔29سال کی عمر میں سدھارتا اپنے ارد گرد کے حالات سے بہت تنگ تھا اور اس نے اپنی زندگی فہم و فراست حاصل کرنے کےلئے وقف کر دی۔ بطور درویش6سال تک زندگی گزارنے کے بعد، آخر کار اسے35سال کی عمر میں ”روشن خیالی حاصل ہوئی“۔ اس کے بعد اس بدھا کے نام سے جانا جانے لگا،” وہ شخص جو جاگ اٹھا“۔ان تمام تر تجربات کے بعد گوتم نے جانا کہ ہر چیز قابل تبدیل ہے اور یہ کہ مصائب اور بے چینیاں اس تعلق کی وجہ سے ہوتی ہیں جو ہم حالات اور چیزوں سے بنا لیتے ہیں جو فطرتاً مستقل نہیں ہوتے۔

اس وقت سے لے کر بدھ مت کی تعلیمات استاد سے شاگرد تک پہنچائی جانے لگیں۔بدھ مت بہت سی مختلف اشکال مین تقسیم ہوا ہے۔ ان فرقوں میں سے ایک ذین بدھ مت ہے۔ قریباً 750عیسویں میں ایک اور استاد نے جس کا نام بدھی دھرما تھا انڈیا سے چین تک سفر کیا اور یہاں بدھ مت کو متعارف کیا۔ اس لئے چند حوالہ جات بدھی دھرما کو ذین بدھ مت کا باپ مانتے ہیں۔

ا گروہ کا غالبا کوئی سائز موجود نہیں کیونکہ بدھ مت کے بہت سے سکول موجود ہیں جو ذین بدھ مت سے ملتے جلتے ہیں۔

ذین اس لحاظ سے ایک مذہب نہیں جس لحاظ سے کسی مذہب کو تصور کیا جاتا ہے۔ ذین کا کوئی خدا نہیں، کوئی رسمی روایت نہیں، کوئی موت کے بعد زندگی نہیں، کوئی ابدی سزا یا جزا کو نظام نہیں۔ ذین کے عقائد کا کوئی مرکب نہیں ہے۔ ذین کی تعلیمات کسی بھی شخص کے دل اور دماغ سے آتی ہیں۔ اس کا زور زیادہ تر تجربات اور ”تخلیقی صدمے‘ ‘ پرہے۔

ختلف قسم کے بدھ مت سب مختلف نظر آتے ہیں لیکن ان سب کا مرکز چار معروف سچائیاں اور آٹھ قوانین کا راستہ ہے۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب جن میں بدھ مت بھی شامل ہے، سکولوں اور فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔ ذین بدھ مت چینی لوگوں، امریکیوں اور جاپانیوں میں مختلف ہے۔ چونکہ بدھ مت کا آغاز چین کی بادشاہت Tangسے ہوا، تاہم امریکیوں اور جاپانیوں کےلئے اور چند چینی لوگوں کےلئے بھی ذین کی تعلیمات کو قبول کرنا چینی ذین بدھ مت میں اچھائی اور برائی دونوں کو زندگی کا حصہ مانا جاتا ہے۔جاپانی ذین خود کار ضبط کو فروغ دیتا ہے اور یہ سامورائی جماعت میں زیادہ مقبول تھا۔ جب کی، امریکی ذین احساس کمتری کا شکار ہیں اور کسی شخص کی زندگی کو بھرپور انداز سے گزارنے کا تصور رکھتے ہیں۔

جدیدغیر مذہب کی مسلک پرستی:

کثرت پرستی ایک سے زیادہ خدا پر ایمان رکھنا ہے( یونانی = Theos+poly،”بہت سے خدا“) بائبل کثرت پرستی کی شدید مزمت کرتی ہے۔ یوحنا رسول لکھتا ہے کہ رموز معرفت کے مذاہب کی بنیاد بابل میں تھی(مکاشفہ17باب)دنیا کے اسی خطے میں بابل کابرج تھا، جہاں قدیم لوگوں نے آسمانوں تک پہنچنے کےلئے برج تعمیر کیا۔ یہ کوشش یا تو جھوٹے خدا کی پرستش کرنے کی تھی یا انسان کےلئے خدا کے مقام تک پہنچا تھا۔ بائبل کے مطابق، بابل کے برج پر خدا نے ان کی زبانوں میں اختلاف ڈالا اور” ان کو تمام روی زمین پر پراگندہ کیا“(پیدائش 11 باب 8آیت)۔ اس سزاکا نتیجہ غیر مذاہب یا کثرت پرست، بہت سے دیوتاﺅں کی پرستش ،تھا۔

مادہ پرستی ان مذاہب کےلئے اصطلاح ہے جو یک سے زیادہ خداﺅں کیپرستشکرتے ہیں۔ بابل کے برج کے دور کے بعد، زیادہ تر مذاہب کثرت پرست تھے، جن میں میسو پوتیمیا، مصر، کعنان، یونان، روم اور شمالییورپ اور دنیا کے دیگر علاقوں کے چند کوگ شامل ہیں۔ مشرقی Monismکی اشاعت کے ساتھ ساتھ ہم نے قدیم مادہ پرست مذاہب کی تجدید دیکھی۔

ڈروڈ ازم۔ جنہیں Celtic مادہ پرست اور Neoمادہ پرستوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ڈروڈ ازم اصل میں ایک بانی کی بنائی ہوئی تحریک نہیں ہے، بلکہ یہ یورپ کے بہت سے مذاہب کے قدیم عقائد کا مجموع ہے۔ ڈروڈازم کا نقشہ 4000قبل از مسیح تک کھینچا جا سکتا ہے، لیکن مذہب قریبا200قبل مسیح تک Celtic قبائلی قوموں میں نہیںآیا تھا۔

ڈروڈک عبادت کی جدید اور تبدیل شدہ شکل کا پہلا تہوار 1792میں منایا گیا۔ ایڈورڈ ولیمز نے اپنا نام تبدیل کر کے Welsh ”Tolo Morganwg“ رکھا اور ڈروڈ ازم کی تعلیمات،عقائد اور تاریخ پر پرانے مسودے تحریر کئے۔23ستمبع1792میں اس نے ایک تہوار منعقد کیا جسے آج بھی چند Neo ہر سال مناتے ہیں۔ ڈروڈ ازم کے 20ویں صدی کے شمارے کو P.E.I نے شروع کیا تھا۔ایک اور گروہ Ovetsاور ڈروڈز 1717میں اس کے آغاز کا دعویٰ کرتا ہے مگر یہ ارد گرد کے حالات کے چندخواص بھی بیان کرتا ہے۔

اگر چہ Celts کی تحیری زبان تھی، تاہم ان کے مزہبی اور فلسفی عقائد زبانی شکل میں محفوظ تھے کیونکہ تحریری مسودے غیر موزوں اور غیر مستحق سمجھے جاتے تھے جو کہ ڈروڈ ازم کےلئے بہت اہم تھے۔ تاہم مسیحی کاہنوں نے چند قدیم کہانیاں محفوظ کی تھیں، گو کہ شاید یہ تبدیل ہوگئیں تھیں۔ برطانوی بادشاہ آرتھر کی کہانی اور The Knights of the Round Table اسی Celt Mythologyمیں اپنی بنیاد رکھتے تھے۔”Myrlen“ بھی انہی ڈروڈک کانیوں سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ کہانیا ںا ور تاریخی واقعات ”مقدس ادب “ کے متوازی ہیں۔ ڈروڈ فطرت کے ساتھ قریبی اور گہرا تعلق استوار کرنے کے قائل تھے۔ وہ لافانی روح پر ایمان رکھتے تھے جو یا تو دوبارہ جنم لے سکتی ہے یا پھر کسی دوسری دنیا میں تبدیلی کے ساتھ محفوظ ہو سکتی ہے۔

جدید ڈروڈز خود کو ”کثرت پرست فطرت کے پرستش کرنے والے“ تصور کرتے تھے۔جنہوں نے اپنے Celtic اجداد کے عقائد کومحفوظ رکھا۔ڈروڈازم ایک ایسی تحریک ہے جس میں کوئی شخص کسی بھی دوسرے ڈروڈ سے ملے بنا حصہ لے سکتاہے۔ جدید تحریک روحانیت اور فطرت کی قوت پر ایک ایمان کی بنیاد کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔ ڈروڈ ازم کے فلسفے کی بنیاد مادہ پرست سوسائیٹیوں پر ہے جو کالجوں میں معروف کورسز ہیں۔

اس گروہ کی تعریف کافی وسیع معلوم ہوتی ہے۔ اس کی تعداد کا تجزیہ کرنا مشکل ہے۔ یا قریباً سینکٹوںیا ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ جن مین سے زیادہ تر کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیںکہ وہ فرضی کہانیوں اور تارخی کہانیوں سے اخذ کئے گئے ہیں۔

کابلاہ۔ جسے قابلہ کے طور پر بھی جانا جاتاہے۔ یہ تمام تر حروف تہجی عبرانی زبان کا ترجمہ ہیں۔ اضحاق بلاینڈ کو ، جو بارھویں صدی میں پیدا ہوا، کابلاہ کا باپ مانا جاتا ہے۔ کابلاہ کے حصوں کو پہلی صدی عیسوی تک تصور کیا جاتا ہے۔ یہ اضحاق کی زندگی کے دوران ہی سکالری گروہوں کے طور پر تشکیل پایا، مگر اس کا حتمی سال معلوم نہیں۔پہلی کابلی نظریات قدیم دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اضحاق بلاینڈ یہودی متصوفیت کو نام دینے والا پہلا شخص تھا: کابلاہ۔ اسنے روایت کی بنیاد پر ایک سکالری گروہ تشکیل دیا۔

مقدس ادب میں توریت، سیفر یزرح، یا”تربیتی کتاب“ ۔ سیفر یازوہر اور سپین کے موسز ڈی لئین کی تحریر کردہ ”The Book of Splendour“ اور ”Key of Solomon“ شامل ہیں۔

کابلاہ کو اکثر یہودیت کا قدیم فرقہ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم یہ غور کیا جانا چاہئے کہ غیر مذہبی یہودی ربی اس گرپ کو مسلک پرست تصور کرتے تھے۔ کابلاہ کا مطلب ”حاصل کرنا“ یا ” قبول کرنا“ ہے۔یہ مانا جاتا ہے کہ جب موسیٰ کوہ سینا سے دس احکام لایا تو وہ اپنے ساتھ زبانی شریعت یا کابلاہ بھی لایا تھا۔ وہ لوگ جو اس بھید کو جانتے ہیں وہ توریت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں جس میں خیہ پیغامات ہیں۔ اس لئے کابلاہ کے خاص اصول توریت کی الوہیت پر ایمان لانا ہے اور یہ توریت کا مطالعہ کرنے سے آپ دنیا کی تخلیق کو سمجھ سکتے ہیں۔ کابلاہ کے لاگ یہ مانتے ہیں کہ نبی ایسا شخص ہے جو ’ ’خدا کا چنیدہ“ ہوتا ہے۔

قابلہ ایک مذہب ہے۔ عام طور پر تمام فلسفیوں اور افسون گروں کے پاس کابلاہ کے چند پہلوﺅں کا کار آمد علم تھا۔جن گروپوں نے کابلاہ کی مشق کی ان میں ہر میٹک، جناسٹک، نیو پلاسٹس، پینتھا گونسٹس ، روسیکروشئینسٹس، تانترا، گولڈن ڈان کا انگریزی گروپ اور فرانسیسی جادوگر ایلنس لاوی شامل ہیں۔ چند کابلاہ کے لوگ روایتی جادوگری، قوتوں کے ناموں اور روحوں سے بات چیت کا کام کرتے ہیں۔

کابلاہ ایک مسیحی فرقہ ہے جو قابلہ کو کلام میں پوشیدہ معنوں کو سمجھنے کا طریقہ سمجھتا ہے۔قابلہ کاخاص راہنما یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ” کوئی بھی سائنس ہمیں یسوع مسیح کی الوہیت کےلئے جادو اور کابلہ کی نسبت قائل نہیں کر سکتی۔“

کابلہ کے لوگ توریت میں پوشیدہ معنوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ کابلہ کے لاگ یہمانتے ہیں کہ عبرانی حروف تہجی کے تمام الفاط کا پوشیدہ مطلب ہے۔کابلہ کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ جانتے ہیںکہ یسوع مسیح خدا کا بیٹا ہے کیونکہ عبرانی لفظ خدا کے حروف Yod Heh Vav Hehہیں۔ پانچواں حرف Shin شامل کرتے ہوئے یسو ع کا نام عبرانی زبان میں تشکیل دیا گیا(Yod Heh Sin Vav Heh) کابلی لوگوں کےلئے Yod آگ، Hehپانی، Vav ہوا اور آخری Heh زمین اور Shin روح ہے۔

توریت پر ایمان، روحوں کے متعلق عبادات اور عل فلکیات پر ایمان تین خاص چیزیں ہیں جو یہودیت سے لے کر کابلاہ میں ڈالی گئیں ہیں۔کابلاہ کا سب سے مشہور اور بہترین شخص 20ویں صدی میں الیسٹر کراﺅلی تھا جسے شیطانیات میں بہت معروف مانا جاتا ہے۔ شیطانی فلموں کی شہرت میں گولم کی تاریخی کہانیوں کے عناصر پائے جاتے ہیں۔

سانٹیریا۔ جسے La Regla Lucmi کے نا م سے بھی جانا جاتا ہے۔ سانٹیریا کاکوئی مشہور بانی نہیں ہے۔ لیکن یہ مشرقی افریکی مذہب اور یورپ کی کلیسیاﺅں کا عکس ہے۔ جب افریقہ کے غلام نئی دنیا میں آئے، انہوں نے اپنے مذہب کو جاری رکھا، بجائے اس کے کہ یورپ کے مالکین او ر مشنری ان غلاموں کو رومن کیتھولک میں تبدیل کرتے۔ اس نتیجہ میں سانٹیریا ترقی کرتا گیا۔ ان غلاموں نے کیتھولک کے عناصر کو متعارف کرایا۔ اس کی وجہ سے ایک حقیق سامنے آئی کہ چند سانٹیریا کے دیوتاﺅں کی خصوصیات رومن کیتھولک کے مقدسین سے ملتی جلتی ہیں۔نتیجتاً جب وہ غلام اپنے دیوتاﺅں اور دیویوں کی پوجا کرتے تھے تو لگتا تھا کہ وہ رومن کیتھو لک کے پیروکار ہیں۔سانٹیریا کے لوگ زبانی روایات استعمال کرتے تھے اور ان کی مقدس کتب نہیں ہیں۔ ان کی کہانیوں کو Patakis کہا جاتا ہے۔

سانٹیریا کے لوگ ” روحوں “ پر یقین رکھتے ہیں۔ روحیں اتنی زیادہ طاقتور نہیں ہیں جتنا ان کا دیوتا ”Olodumare“ ہے۔اس کی بجائے اوریشس وہ روحیں یا دیوتا ہیں جو فطرت کو قابو کر کے اور انسان کی روز مرہ کی ضروریات کو پرا کر کے انسان کے ساتھ تعلق استوار کرتے ہیں۔ ہر اوریشا کی اپنی ایک منفرد شخصیت ہے۔ ان کی منفرد شخصیات روایتی طور پر تہواروں میں سامنے آتی ہیں۔ ان کی روایات میں سانٹیریا کے لوگ ایک خاص قسم کے اوریشا کے مطابق جسے وہ خوش کرنا چاہتے ہیں خاص قسم کے رنگ اور خاص قسم کے جانوروں کی قربانی کرتے اور خاص قسم کے ڈھول بجاتے ہیں۔ موسیقی بجانا ضروری ہے کیونکہ یہ اوریشا کو کسی خاص کاہن کو مخصوص کرنے میں مدد دیتا ہے۔ بعد میں اسی تہوار کے دوران لوگوں کے سوالا ت ک جوابات دئیے جاتے ہیں۔ اوریشا اعلان کرتا ہے کہ ایک خاص حکم کی تعمیل کی جائے گی، ایا جانور کی قربانی دی جائے گی۔یہ سب کچھ تہوار کی قسم اور اوریشا کا اپنے پرستاروں کی طرف رویے پر منحصر ہے۔

سانٹیریا کا سائز بیان کرنا مشکل ہے مگر جو لوگ سانٹیریا کے تہواروں میں حصہ لیتے ہیں وہ دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ غالباً نیو یارک میں 300000سانٹیریا کے لوگ ہیں۔ چند دوسرے مقامات بھی ہیں جہاں سانٹیریا بھی پائے جاتے ہیں جیسے کیوبا، فلورڈا، نیو جیرسی، میکسکو، کولمبیا، وینزویلا، ارجنٹینا، فرانس اور نیدر لینڈ۔ 1990کی دہائی کے اوائل میں ، فائیڈل کاسٹرونے کیوبا کے کیتھولک اور پرٹیسٹنٹ مسیحیوں میں تجدید کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کیوبا کا قانونی مذہب بنایا۔ سانٹیریا کیوبا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔

سانٹیریا اور جانوروں کی قربانی کو بہت زیادہ تنازعہ کا شکار ہونا پڑا۔ مخالف گروہوں نے اس بات کو فروغ دیا کہ جانوروں کی قربانی غیر انسانی عمل ہے اور یہ ختم ہونا چاہئے۔ تاہم، سانٹیریا کے لوگ جانوروں کی قربانی کو ان کے مذہب کا لازمی حصہ قرار دیتے ہیں۔عام طور پر بیماری ک وقت اور کاہنوں کےلئے تہوار مناتے وقت چھوٹے جانوروں کو قربان کیا جاتا ہے۔ یہ تنازعہ امریکہ کی عدالت عالیہ میں مقدمہ بن گیا۔ کیوبا کے سانٹیریا کے لوگوں نے مقدمہ جیت لیا اور عدالت عالیہ نے انہیں اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ اپنے مذہب کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کر سکتے ہیں۔

سانٹیریا کے بارے مین ایک اور الجھن ان کا Voodoo کے ساتھ رابطہ ہے۔ اگر چہ یہ دونوں مذاہب افریقہ کے روایتی ایمان سے جنم لئے، مگر سانٹیریا اور ووڈو ایک ہی مذہب نہیں ہیں۔ دونوں مذاہب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سانٹیریا کا ماننے والا شخص سانٹیریا اور کیتھولک میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔ سانٹیریا کے لوگوں کےلئے اوریشس اور مقدسین ایک جیسے ہی ہیں۔ جب وہ کیتھولک مقدس کی پرستش کر رہے ہیں تو وہ اوریشا کے برابر ہی ہے۔ ارتھوڈیکس مسیحی سانٹیریا اور ووڈو کو مادہ پستی کی ایک شکل سمجھتے ہیں۔

وکا۔ جدید Viccansاپنا مذہبی نظریہ Celtsکی دھرتی ماں والی مسلک پرستی اور یورپ کے پہلے مسیحیوں میں سے Nordicلوگوں سے اخذ کرتے ہیں۔ لفظ ”Wiccans“ اس سر حرفی تماثل کے فقرے میں Anglo Saxon کے مسودے کی ابتدا مٰں پہلے سامنے آتا ہے:” Wyccan and Waelcyrian“، ”Witches and Valkyries“۔ اس لفظ کا اختتام پرانی انگریزی میں مزکر اور مونث دونوں ہی ہیں۔ اور جادوکے فن کا استعمال کرنے والے مرد اور عورتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یہ مذہب قدیم Celticاور شمالی جرمن لوگوں سے نکلا ہے۔ جدید جادو گر ان کے مذہب کو بیان کرتے ہوئے یورپ کے پہلے مسیحیوں کی مادہ پرست روایتوں کو حوالہ دیتے ہیں۔ دنیا کے مذاہب کے پارلیمنٹ کے اجلاس میں پیش کئے جانے والے صحفے میں ، میکائیل تھورن لکھتا ہے:” جدید جادو گری اس مذہبی تحریک کا سب سے بڑا اظہار ہے جسے Neoکی مادہ پرستی کہا جاتا ہے۔اس کے ماننے والے قدیم مادہ پرستوں کے کام کرتے اور یورپ کے پہلے مسیحیوں کے عقائد مانتے اور انہیں اپنی امریکن زندگی میں لاگو کرتے ہیں۔ Wiccans اپنی لطوریا اور عبادت کا مرکز ایک دیوی اور دیوتا پرمرکوز کرتے ہیں۔ روایات اور عبادات چاند اور سال کے دائرہ کے مطابق چلتے ہیں۔ زیادہ تر جادو گر اپنی عبادت ایک کاہن کی طرح کرتے ہیں۔تمام جادو گر اخلاقی ضابطے سے اتفاق کرتے ہیں،” اگر اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو جو آپ چاہیں وہ کریں۔ دوسرے لفظوں میں جو آپ بہتر سمجھتے ہیں وہ کریں، مگرآپ کے اعمال سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔“

Ms. میگزین کے کالم کے مطابق:” جادو گری کاملیت کے ©حوالے سے ہے۔ زمین اور دیوی کے ساتھ کسی کی وحدت کے بارے میں، جو دونوں ایک ہی ہیں اور ایک ہی جیسے ہیں۔ امریکہ میں 20000 مرد اور عورتیں پرانے مذاہب کی پیروی کر رہے ہیں۔ کیلیفورنیا کی سانٹا باربرا کی ریاست میں امریکن مذاہب کی تعلیم کا دارہ دعویٰ کرتا ہے کہ جادو گری اور مادہ پرستی ملک مین بنیاد پرست مسیحیوں کو ختم کرتے ہوئے سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھنے والے مذاہب ہیں۔

جدید جادو گر اس کا انکار کرتے ہیں کہ وہ شیطا ن کے پیروکار ہیں اور وہ دعویٰ کرتے ہیں دیوتاﺅں اور دیویوں کے بارے مین ان کے مسلک پرست نظریات مسیحیوں کے شیطان کے بارے میں خیالات کے ساتھ نہیں ملتے۔ اگر چہ Wiccansشیطان کے ساتھ تعلق رکھنے سے انکار کرتے ہیں، وہ ایک ”عظیم دیوتا بنام پان“ کی پرستش کا اقرار کرتے ہیں۔پان کی رسوم میں ، موسیقی اور روحوں کو شامل کرنے کےلئے منشیات کا استعمال ہوتی ہیں۔ پان کے قبضہ کا نتیجہ جنس پرستی ہوتا ہے۔

یہ ناقابل گریز حقیقت ہے کہ پان شیطان کی عالمگیر علامت ہے، آدھا نسان اور آدھی بکری، پان کی علامت ہے، جو مخالف مسیح کا سب سے بڑا نشان ہے۔ خدا کا نسان مین جنم لینے کے بجائے، جیسا کہ یسوع میں خدا تھا، ہم جانور کے ساتھ انسان کو منسلک کرتا دیکھتے ہیں۔آج ہم ہمارے معاشرے میں اس مخا لف مسیح روح کو ہر جگہ دیکھتے ہیں۔

شیطان کی کلیسیا اور Setکی ہیکل ایک مذہب کو ترتیب دیتے ہیں جو پانچویں سے پندرھویں صدی میں شیطانیات سے ملتا چلتا ہے، اور جدید معروف شیطانیات کے دقیانوسی نظریات سے ملتا جلتا ہے۔ ان دونون شیطانی مذاہب کے عقائد قریباً قریباً ایک جیسے ہی ہیں۔مثال کے طور پر دونوں خود کی ترقی پر اور خود کی بطور اعلیٰ ہستی پرستش پر زور دیتے ہیں۔

شیطان کی کلیسیا کا اغاز 30اپریل1966میں کیلیفورنیا، سین فرانسسکو میں Anton Szandon LaVeyنامی شیطان کے ایک کاہن اعظم نے کیا۔ اس نے رسمی جادو اور مسلک پرستی کی تعلیمات کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ ایک ہفتہ وار جماعت میں جس کا انعقاد LaVey کرتا تھا، ان لوگوں کا گروہ شروع ہو گیا جو مسیحیت کے نظریات کے مخالف تھے۔ بعد میں LaVey نے شیطانی بائبل لکھی جس میں شیطان کے 9نکات شامل تھے۔ یہ انہی تعلیمات کی بنیاد پر ہوا تھا کہ LaVey نے اس گروہ کو آج کے دن مسلک پرستی میں تبدیل کیا جےسے شیطان کی کلیسیا کے طور پر جانا جاتا ہے۔

مذہبی ادب میں شامل ہیں: شیطانی بائبل، شیطانی جادو گر، شیطانی رسوم، شیطانی نوٹ بک اور شیطان کی باتیں۔ شیطان کی کلیسیا رکنیت کی تعداد ظاہر نہیں کرتی، مگر ان کے اراکین کا شمار قریبا دس سے بیس ہزار تک ہوتا ہے۔

شیطان کی بائبل ان نو شیطانی بیانات سے شروع ہوتی ہے جو مسلک پرستی کے نظام کے مکمل عقیدے کو مختصراً بیان کرتے ہیں۔ نو بیانات: (1) شیطان اجتناب کی بجائے، عیش پرستی کی نمائندگی کرتا ہے۔(2) شیطان روحانی رویا کی بجائے ضروری وجود کی نمائندگی کرتا ہے۔(3) شیطان خود کے رایاکارانہ فریب کی بجائے حکمت کی نمائندگی کرتا ہے(4) شیطان ان لوگوں کےلئے شفقت کی نمائندگی کرتا ہے جو اس کے مستحق ہیں، بجائے کہ ناشکروں کےلئے محبت کو ضائع کرنے کے۔(5)شیطان دوسرا گال بھیرنے کی بجائے انتقام کی نمائندگی کرتا ہے۔(6)شیطان ذمہ داروں کےلئے ذمہ داری کی نمائندگی کرتا ہے، بجائے کہ نفسیاتی خونخواری پر توجہ کے۔(7) شیطان انسان کی جانور کے طور پر نمائندگی کرتا ہے، جو اپنی الٰہی روحانیت اور شعوری ترقی کے باعث سب سے زیادہ زہریلہ بن چکا ہے۔(9) شیطان کلیسیا کا ایسا بہترین دوست ہے جیسا کبھی کوئی نہ تھا، کیونکہ اس نے کلیسیا کو ان تمام سالوں میں کام پر لگائے رکھا۔

زیادہ تر شیطان پرست لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ شیطا ن پر ایمان نہیں رکھتے۔ شیطان پر ست مسیحی شیطان کے کردار کا انکار نہیں کرتے، بلکہ وہ اس کی بجائے شیطا ن کو قدرت کی قوت تصور کرتے ہیں۔شیطان کو روشنی کا سہارا، ہوا کی روح اور روشن خیالی والی شخصیت کے بطور پر جانا جاتا ہے۔یہ بھی غور طلب بات ہے کہ شیطان پرست لوگ شیطان کی عبادت نہیں کرتے۔ اس کی بجائے وہ اسے ایک علامت کے طور پر سامنے رکھتے ہیں، کیونکہ وہ خدا کی پرستش کرنے کےلئے رضامند نہیں تھا۔اس لئے خود کی تسکین اور خود کی نیکی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور شیطان پرستوں کی سالگرہ ایک بہت بڑی تعطیل کے طور پر منائی جاتی ہے۔

شیطان پرست بیرونی دیوتاﺅں، فردوس اور جہنم کے وھود سے انکار کرتے ہیں۔وہ یہ مانتے ہیں کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ شیطان کی کلیسیا ایمان رکھتی ہے کہ انسان کو رسوم، فرضی کہانیوں اور عقائد کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسوم مذاہب کی خاص توجہ کی حامل ہوتی ہیں۔ عبادات، جیسے کہ کالی عبادت اور شیطانی جادو، جذباتی رویوں کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ یہاں رسوم کی تین قسمیں ہی: جنسی، شفقت والی اور تباہ کن۔ جنسی رسوم ایک خواہش کو پورا کرنے کےلئے استعمال کی جاتی ہیں، شفقت والی رسوم دوسری میں مدد دیتی ہیں اور تباہ کن رسوم غصے، غضب اور نفرت کےلئے استعمال ہوتی ہیں۔

ان تمام تر روایات اور عقائد کو Anton LaVey نے ایجاد کیا۔ اس نے کلیسیا کے ایمان کی بنیاد اپنے ذاتی تجربات پر رکھی۔ LaVeyشیطانیات کو اجتناب پر عیش پرستی، دوسرا گال پھیرنے پر انتقام لینے اور آئندہ زندگی پر موجودہ زندگی کی تصدیق کرنے کےلئے بیان کرتا ہے۔

Setکا ٹیمپل۔ 1975میں میکائیل نے اس کلیسیا کی بنیاد ڈالی، جو شیطان کی کلیسیا کا سابقہ رکن تھا۔ اس نے اس مذہب کو ترک کر دیا یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ LaVeyاپنے ذاتی مفادات کی خاطر مذہب کی توہین کر رہا تھا۔ میکائیل نے ریاست اور فیڈرل کی تصدیق پاتے ہوئے 1975میں، کیلیفورنیا کی ایک کلیسیا کا تعاون پایا۔

اس کے ادب میں The Book Coming Forth By Nights، The Crystal Tablets of Set، The Teweled Tablets of SetاورThe Scroll of set شامل ہیں۔ٹیمپل آف سیٹ کی رکنیت غالباً 200شمار کی گئی ہے۔

ٹیمپل آف سیٹ انفرادی کردار پر زور دیتی ہے۔ٹیمپل کے اراکین زندہ رہنے، تجربہ کرنے اور جاری رکھنے کےلئے نفسیات کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کا ما ننا ہے کہ شعور مین اس کی اپنی الوہیت شامل ہو سکتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ٹیمپل ایسے کسی بھی عمل کے خلاف ہے جو صرف ذہنی خوشی پر مبنی ہے جیسے کہ منشیات، عبادات اور انٹرٹینمنٹ۔

تاہم، جب شیطان کی کلیسیا عبادت کی تشریح کسی شخص کی عیش پرستی کے ساتھ منسلک ہونے کے طور پر کرتی ہے، تو ٹیمپل انفرادیت پسندی پر زور دیتی ہے۔ ہر رکن کا مقصد ان کی اپنی روح کو پہچاننا، حوصلہ افزائی دینا اور اسے حقیقت کا روپ دینا ہے۔ اس مرحلے کو ایکسیپر کہا جاتا ہے۔ ٹیمپل کے لوگ ایکسپر کو مختلف وسیلوں سے فروغ سے فروغ دیتے ہیں۔مگر خاص طور پر ایک دوسرے ساے رابطہ کرتے ہوئے۔ ٹیمپل کے لوگوں کو یہ خاص ہدایت ملتی ہے کہ وہ بطور ایک فرد کے خود کی کامل ترقی کےلئے کلیسیا سے ہٹ کر دلچسپیوں کی مختلف ورائٹی کو فروغ دیں۔

اگر چہ شیطانیات شیطان کے وجود کا دعویٰ نہیں کرتے، مسیحیوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ شیطانیات کا سب سے بڑا قانون خود کی عبادت کرنا، خود کے دیوتا بننا، موروثی گناہ کے متوازی ہے اور یہ شیطانیات ک حوالے سے بائبل کے جوہر کے مترادف ہے۔ چاہے اس کے ماننے والے یہ ایمان رکھتے ہیں کہ شیطان کا وجود ہے یا نہیں۔ تمام تر جھوٹے مذاہب، بشر پرست بھی جن میں شامل ہیں۔ مخالف مسیح اور ابتدا سے شیطانی ہیں۔

”جو چاہو کرو“ ان لوگوں کےلئے درست ہو سکتا ہے جن کی ”عقلوں کو اس جہان کے خدا نے اندھا کر دیا ہے“(2کرنتھیوں4باب 4 آیت)۔ تاہم یہ ا ندھے پن کا دھوکہ کسی کی زندگی کی عناصری سچائیوں کو غیر محفوظ کرتا ہے، کہ حتمی طور پر دو سلطنتوں اور دو قسم کے لوگ ہیں؛ وہ جو خدا کی بادشاہت میں ہیں وہ خدا سے نجات یافتہ ہیں اور وہ جو شیطان کی بادشاہی میں ہیں خود کو نجات دینے کو کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح سے خداکی بادشاہی ایک بڑے حکم پر قائم ہے کہ،” تو خداوند اپنے خدا کو اپنے سارے دل، اپنی ساری جان، اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے پیار کر“(استثنا6باب5آیت، مرقس 12باب30آیت)۔ ایسے ہی شیطانیات بھی ایک بنیادی قانون کے تحت ختم کی جاسکتی ہے کہ،” جو چاہو کرو۔“

کیسی عجیب بات ہے کہ شیطان پرستوں کو زیادہ تر لوگوں کی نسبت گناہ کی حقیقی جڑ کو اور اس بنیادی سچائی کو بہتر طور پر سمجھنا چاہئے جو تمام انسانیت کو منقسم کرتی ہے۔ ہم میں سے ہر کسی کو ایک انتخاب دیا گیا ہے جس پر ابدیت کا نحصار ہے۔ ہم اپنی مرضی سے چلتے ہوئے ہمیشہ کےلئے کھوئے ہوئے رہ سکتے ہیں یا ہم اس واحد ہستی کی تلاش کر سکتے ہیں جو ”راہ ، حق اور زندگی“ ہے(یوحنا14باب6آیت)۔

مزید قدیم بدعتوں کی تجدید:

دیگر قدیم بدعتیں مسیحی کلیسیا کی جدید تحریکوں میں قابل فہم ہیں۔ درج ذیل بدعتیں اس لحاظ سے سنجیدہ مسائل ہیں کہ یہ پوری دنیا کی پروٹیسٹنٹ کلیسیاﺅںمیں بہت بڑے پیمانے پر پھیلیں۔

ڈائینیمک مونارکئین ازم: جسے یونی ٹرینئین ازم کے طور پر بھی جانا جاتا ہے،یہ خدائے واحد میں صرف ایک شخص پر ایمان رکھنا ہے۔ خاص طور پر، یہ اصطلاح عام طور پر ایسی تحریک کو بیان کرتی ہے جو خدا کی واحدت پر زور دیتی ہے، مگر وہ یہ یسوع مسیح کی الوہیت کا انکار کرتے ہوئے کرتی ہے۔یہ پروٹیسٹنٹ میں مخالف تثلیث پسندی کے طور پر سامنے آئی اور ایک ایسی جماعت کے طور پر قائم ہوئی جسے آج کل یونیٹیرئین یونیورسلسٹ ایسوسی ایشن کہا جاتا ہے۔ یسوع مسیح کی الوہیت کا انکار کرنے کے ساتھ ساتھ وہ بہت سے دیگر عقائد کا بھی انکار کرتے ہیں جن میں یسوع کی کنواری سے پیدائش کا عقیدہ بھی شامل ہے۔

مارشئین ازم: جسے ”دوخداﺅں کی بدعت“ بھی کہا جاتا ہے، مارشئین ازم تاریخ میں کئی بار سامنے آئی۔ ایک مارشئین وہ شخس ہے جو دو خداﺅں یا اصولوں پر ایمان رکھتا ہے: عموماً نیکی بمقابلہ بدی(روح بمقابلہ مادہ)۔ اسی فرقے کے ماتحت مانی شئین ازم نے فروغ پایا۔ ہمارے دور میں یہ بدعت روایت پسندی اور تضادیت پسندی کی صور ت مییں سامنے آئی ہے۔

روایت پسندی اس نظریے سے اخذ کی گئی ہے کہ خدا نے پوری تاریخ میں مختلف تہواروں اور روایات کے ذریعے مختلف کام سرانجام دئے۔ ایک روایت پسند شخص پرانے عہد نامہ میں اور نئے عہد نامہ میں ، قہر کے ساتھ کام کرتے ہوئے خدا اور پرانے عہد نامہ میں انتقام کے نظریے اور نئے عہد نامہ میں فضل اور محبت کے ساتھ پیش آنے کے نظریے میں شدید قسم کی تقسیم کرتا ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ ابتدائی روایت پسندوں میں سے زیادہ تر آرتھوڈیکس مسیحی تھے۔ علم الٰہیات میںیہ تبدیلی ایک بڑی بدعت، تضادیت پسندی، کے لئے راستہ ہموار کرتی ہے۔ جس کا ظاہری مطلب ”مخالف شریعت“ ہے۔ تضادیت پسندی کہتی ہے کہ چونکہ انسان صرف ایمان ہی سے نجات پاتا ہے ، اور چونکہ ایمان مسیحیوں کو شریعت سے آزاد کرتا ہے، تو وہ مزید شیریعت کا پابند نہیں ہے۔ تضادیت پسندی ایک غلط الٰہیاتی نظام پیدا کرتی ہے۔ جس میں بائبل کے وہ قوانین لاگو نہیں ہو سکتے جو کسی شخص یا معاشرے کے چال چلن پر اثر انداز ہوں۔ روایت پسندی میںتضادیت پسندی کی سوچ کو پرانے عہدنامے کی شریعت کا نئے عہد نامے کے ماتحت شخص کے ساتھ تعلق استوار کرتے ہوئے فروغ دیا۔آرتھوڈیکس مسیحیوں کےلئے کلام کے عہد ناموں کا تحاد اور خدا کا خلاقی ظابطہ مسیحی معاشرتی ترتیب کی بنیادیں ہیں، خدا کے ناقابل تبدیل ابدی عہد نامہ کے آرتھو ڈیکس نظریات روایت پسندی اور تضادیت پسندی کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں۔

چلیا ازم ۔ انہیں ملنییر ئین ازم بھی کہا جاتا ے۔ چلیا ازم یونانی لفظ”ہزار“ سے اخذ کیا گیا ہے۔ چلیا ازم غیر کلامی ہے جو مسیح کی آمد ثانی کی تاریخ مقرر کرتے ہیں۔ یہ پہلی صدی میں تھسلنکیوں کی کلیسیا کے سامنے آیا۔ تھسلینکیوں کے نام پولو س کے خطوط مسیح کی آمد کے حوالہ سے تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہیں۔

ایک چلیا پرست شخص وہ ہے جو تعلیم دیتا ہے کہ یسوع مسیح اس زمینی بادشاہی میں یوحنا مکاشفہ کے 20باب کے مطابق”ہزار برس“ تک سلطنت کریں گے۔ چلیا کے ماننے والے یسوع مسیح کی آمد کے بارے میں پیشن گوئیاں کرتے ہیں۔ چلیا کے ماننے والے یسوع کی آمد ثانی پر ایمان رکھتے ہیں اور اس لحاظ سے وہ آرتھو ڈیکس ہیں، مگر وہ اس کی آمد ثانی پر زیادہ زور دیتے ہیں اور وہ مسیح کی بادشاہی کے حوالے سے غیر بائبلی عقائد پر توکل رکھتے ہیں۔ بائبل تعلیم دیتی ہے کہ مسیح کی بادشاہی اس دنیا کی نہیں(یوحنا18باب36آیت)؛ نہ ہی یہ زمینی چیزوں پر مشتمل ہے(رومیوں14باب17آیت)۔ یسوع نے اپنی آمد ثانی کے حوالے سے اپنے شاگردوں کو کہا: ” ان وقتوں اور معیادوں کا جاننا جنہیں باپ نے اپنے ہی اختیار میں رکھا ہے تمہارا کام نہیں۔“(اعمال1باب7آیت)۔

روایت پسندی کا پری میلینئیل ازم کے حوالے سے نظریہ مبشران میں بہت مشہور ہوا۔ جو جان نیلسن ڈاربی نے 1830میں شروع کیا۔ زیادہ تر رومن کیتھولک لوگ اور سابقہ صدیوں کے پروٹیسٹنٹ لوگ یا تو ایمیلینئیل تھے یا پھر پوسٹ میلینئیل تھے۔اگر چہ یہ ایک ابتدائی بدعت نہیں مگر روایت پسندی کا پری میلینئیل کا نظریہ بنیادی طور پر چلیائی کی غلطی ہے۔

روایت پسندی کے تنید نگار اس نظریے کے محرکوں کے ساتھ ایک مسئلے کا بھی ذکر کرتے ہیں، روایت پسند ا س دنیا میں ہونے والے ہر واقعہ میں تقریباً ہر ترقی کی بائبلی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ مکاشفہ9باب میں ٹڈیوں کی آفت قوبراہ ہیلی کاپٹر اور حزقی ایل 38باب میں مزکورہ اسرائیل کے فتح مند لوگ سویت یونین کی فوج بن گئی۔ تنقید نگار اس بات سے بھی پریشان ہوتے ہیں کہ بعض مسیحی پیشن گوئی اور الٰہی آزادی میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ وہ دیگر کاموں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

ہمنا ازم: اس بدعت کا نام پہلی صدی کے بدعتی ہیمنس کے نام سے رکھا گیا ، جس کے نام کا ذکر پولوس رسول اپنے خطوط میں ان لوگوں میں سے ایک شخص کے طور پرکرتا ہے ”جو یہ کہہ کر کہ قیامت ہو چکی ہے حق سے گمراہ ہو گئے ہیں“(2تمیتھیس 2باب 17 آیت)۔ ہیمنس کو ”hyper Preterism“ کے طور پر جانا جاتا ہے۔Preterismبائبل کی تشریح کا وہ طریقہ کار ہے جو بائبل کی پیشن گوئیوںکی کاملیت کو بائبل کے وقت کے مطابق ترتیب دیتا ہے نہ کہ بائبل کی ہر پیشن گوئی کو مستقبل کے ساتھ ترتیب دیتا ہے۔ متواتر Preterismبائبل کی ہر پیشن گوئی کو، مسیح کی آمد ثانی وک بھی شامل کرتے ہوئے، بائبل کے وقت کے مطابق پورا کرتا ہے، تاہم اسے hyper Preterism کی اصطلاح دی گئی ہے۔

یہ چلیائی بدعت کے مخالف ہے۔ مسیح کی آمد کے قائل ہونے کی بجائے hyper Preterism انکار کرتے ہیں کہ مسیح نے ابھی آنا ہے، اس کی بجائے وہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ واقعہ پہلی صدی میں خدا کی بادشاہی کے ساتھ ہی رونما ہو چکا ہےPreterists تعلیم دیتے ہیںکہمسیح کی آمد ثانی مسیح کے جی اٹھنے کے فوراً بعد یا 70عیسوی میں یروشلیم میں یہودیہیکل کی تباہی یا پینتیکوست پر ہو چکی ہے۔

اگر چہ یہ ایک بڑا گروپ نہیں تاہم ہیمنس سے بائبلی آتھو ڈیکس کو خطرہ ہے۔ ہیمنا ازم ایک ابتدائی بدعت ہے، جو چلیائی اور روایت پسندی سے زیادہ سنجیدہ ہے، کیونکہ یہ رسولوں اور نصان کے عقیدے کے ایک بنیادی نقطے کا انکار کرتی ہے، کہ مسیح دوبارہ آئے گا، جسمانی طور پر زندوں اور مردوں کی عدالت کےلئے۔

معادیات پر ایک مختصر بیان:

معادیات ”آخری چیزوں‘ یا انسانی تاریخ کے اختتام اور مسیح کی آمد ثانی سے متعلقہ عقیدہ اور الٰہیات ہے۔ معادات کا مطالعہ تین خاص حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: پری میلینئیل ازم، ایمیلینئیل ازم اور پوسٹ میلینئیل ازم۔ معادیات کے یہ مختصر نظریات بائبلی آرتھوڈیکس کا تعین نہیں کرتے۔ تمام مسیحی یسوع کی جسمانی ظاہری واپسی پر یقین رکھتے ہیں۔ مسیحی شاید ہزار سالہ دور کے حوالے سے آخری ایام کے واقعات کے حوالہ سے مختلف نظریات رکھتے ہوں ، تاہم چلیائی اور ہیمنا ازم مکمل طور پر غیر بائبلی بدعتیں ہیں، جنہیں نظر انداز کیا جانا چاہئے۔ ذیل میں معادیات کے تین خاص نقاط کا مختصرا± خلاصہ ہے:

پری میلینئیل ازم۔ لفظی طور پر ”ہزار سالہ مدت سے قبل“ یہ عقیدہ ہے کہ مسیح کی حقیقی جسمانی آمد ثانی ہزار سالہ دور سے قبل رونما ہوگی۔پری میلینئیل ازم کلیسیا کو ”محض بشارتی کام“ کی حالت میں لے آتی ہے۔

ایمیلینئیل ازم۔ لفظی طور پر ”کوئی ہزار سالہ دور نہیں“۔ یہ عقیدہ ہے کہ مکاشفہ20باب کا” ہزار سالہ دور “صرف کلیسیائی دور کےلئے ایک استعارہ ہےل اس عقیدے کا ماننے والا ایمان رکھتا ہے کہ تاریخ معاشرے میں بدی یا نیکی کی فتوحات کے بنا پر مسیح کی آمد ثانی تک جاری رہے گی، مگر یہ عقیدہ پوری تاریخ میں بدی اور نیکی کی دونوں تحریکوں کو دیکھتا ہے۔

پوسٹ میلینئیل ازم۔ لفظی طور پر ” ہزار سالہ دور کے بعد“، یہ عقیدہ ہے کہ مسیح زم،ین پر تب واپس آئے گا جب ظاہری ہزار سال مکمل ہو ں گے۔ ہزار سالہ دور کے دوران مسیح کی سلطنت زمین سے آسمان تک بڑھ جائے گی جو” بہت لمبا عرصہ ہے“۔ پوسٹ میلینئیل ازم کا عقیدہ کلیسیا کو مسیح کی آمد سے قبل معاشرتی ڈھانچہ بنانے اور زمین پر تعلیم، فنون، سائنس اور میڈیسن کی ترقی کی بدولت امن اور خوش حالی کا ”سنہری دور“ لانے کی طرف لے جاتا ہے۔

آرتھوڈیکس معاملات:

آرتھو ڈیکسی، عقیدائی مسیحت انسانی آزادی کی بنیاد ہے مسیحی ایمان میں ، تثلیث ایک خدا میں تین اشخاص ، اہم ہے۔ تثلیث میں ہر شخص متوازی طور پر اہم ہے، مگر باپ کی تابعداری ہمیشہ قائم رہتی ہے اور خدائے واحد کا اتحاد ہمیشہ محفوظ رہتا ہے۔ اس طرح، جب کوئی مسیحی گناہ سے آزاد ہوتا ہے تو وہ یسوع مسیح کے آگے سر جھکاتا ہے۔ پرانی انسانیت مر جاتی ہے مگر نئی انسانیت سامنے آتی ہے۔جب دونوں، اتحاد اور انفرادیت، خدا کے عطا کردہ مناسب کردار میں ہوتے ہیں، تو انسان خود کو برتر کر لیتا ہے۔وہ خدا کے ساتھ شریک ہوتا ہے، اپنی گناہ آلودہ حالت سے آزاد، جسم کی بدکاری سے آزاد، شیطان اور دنیا سے آزاد۔

صرف مسیح پر ایمان کی بدولت ہی انسان کی آزادی کو جانا جا سکتا ہے۔ حقیقی نجات کیا ہے؟ کیا یہ انسان کی کوششوں سے ملتی ہے یا خدا کے فضل سے؟ انسان کو ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے،وہ ایک کو چنے گا یا دوسرے کو؛ مسیح کو یا انسان کو۔کوئی شخص دوسرے کا انکار کئے بغیر ایک کا انتخاب نہیں کر سکتا۔

مسیحت نے مغربی آزادی کو ممکن بنایا۔ اور اب اس مکاشفہ کی مغربی ثقافت سے غیر موجودگی ہمیں لاچار حالت میں لے گئی ہے۔ مغربی آزادی تب شروع ہوئی جب ” مسیح کے سوا کوئی بادشاہ نہیں“ کلیسیا کا نعرہ بنا۔ قیصر کے خداوند ہونے کے دعویٰ پر کلیسیا کے رد عمل کے نتیجہ میں بہت خون بہا۔ رومی قیصر ، جادو گر پوپ، نپولین، فریڈرک نیئشے اور اڈولف ہٹلر نے مسیحت کو تباہ کرکے اس کی جگہ ایک مخالف مسیح مذہب لانے کی کوشش کی۔انسان کا کسی فرد کو خود اپنا خدا بننے کا نظریہ یا خود کو نجات دینے کا نظریہ اسے مرکزی مطلق العنانیت کی طرف راہنمائی دیتا ہے۔

مسلک پرست انسان کی نجات اور کلیسیا کی ترقی کو مزید خوفناک بناتے ہیں۔مسلک پرستوں کی شمولیت مغربی آزادی کے ختم ہپونے کی علامت ہے۔ کلیسیا میں مسلک پرستوں اور بدعتوں کے خالف جنگ کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ یہ اتنا ہی سجندہ معمالہ ہے جیسے کہ کوئی ہٹلر یا کوئی نپولین آپ کے ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا فرمانبرداری کا جواب دینا، اس وقت اور ابدیت میں دونوں میں زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔

Your comments are welcome

Use Textile help to style your comments

Suggested products

DVD

The Silent Scream

Ronald Reagan changed his view as a result of watching The Silent Scream – a movie he considered so powerful and convicting that he screened it at the White House.

Read more