خُدا کے نام اور رُتبے۔ خُدا کون ہے؟

اس نہایت ہی گہرے اور اہم سوال کاتصور کرنا بُہت مُشکل کام ہے ۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو بُہت سے دوسرے سوالوں کی طرف لے جاتا ہے ۔
خُدا کِس کی مانند ہے ؟ اُس کاوجود کیا ہے ؟ کیا ہم بالکل صیحح حقیقت کو جان سکتے ہیں ؟ یا کیا حقیقت کسی چیز سے متعلقہ ہے ؟
یہ اہم سولا ت ہیں کیوں کہ صیحح جوابات ہی اس چیز کا جائزہ پیش کرتے ہیں کہ کون مسیحی ہے اور کون مسیحی نہیں ہے ۔محض ہم صرف اس وجہ سے ابدی زندگی رکھتے ہیں کیوں کہ ہم خُدا کو جانتے ہیں ۔اور اگر ہم خُدا کو جانتے ہیں تو پھر ہمیں معلوم ہے کہ وہ کون ہے اور وہ کیسا ہے ۔

اس سوال کی بنیادی اہمیت کہ “خُدا کون ہے ؟“1991 میں میرے دِل میں اُتری تھی جب ماسکو کے اندر میری ملاقات نوجوانوں کیساتھ ہوئی تھی جو کہ سابقہ سویت یونین میں موجود ہر جگہ سے ایک مسیحی نوجوانوں کی کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے تشریف لائے تھے ۔بعض دور دراز مشرق میں سے تھے اور وہاں پر شرکت کرنے کے لیے آدھی دُنیا کا سفر کرکے آئے تھے ! بُہت سارے طالبِ عِلم اپنی ساری زندگیاں ایسے شہروں میں بسر کرچُکے تھے جہاں پر تو بشارتی کلیسیائیں ہی نہیں تھیں ۔بُہت ساروں کو مسیح یسوع میں حقیقی ایمانداروں کیساتھ مِلنے کا اتفاق ہی نہیں ہواتھا ۔واحد کلیسیائیں جو کبھی بھی اُنہیں دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا وہ روسی آرتھوڈوکس کلیسیاﺅں کی عمارتیں تھیں ۔ برسوں زیادہ تر کلیسیاﺅں کے اندر بُہت قلیل مقدار میں شرکت ہوتی رہی ہے کافرانہ اشتراکیت کے باعث حتیکہ کروڑون لوگوں کے شہروں میں بھی ایسا ہی ہوتارہا ہے ۔ بعض طالبِ عِلم سائبریا میں موجود کچھ شہریوں سے تشریف لائے تھے جو کہ اشتراکیت کے انقلاب کے بعد قیام میں آئے تھے ۔اِن میں سے چند ایک شہروں کے اندر بالکل بھی کلیسیائیں موجود نہیں تھی ۔

میری زندگی کے اندر پہلی مرتبہ میری ملاقات ایسے لوگوں کیساتھ ہوئی تھی جنہوں نے کبھی بھی خُداوند یسوع مسیح کانام نہیں سُنا تھا ۔وہ خُدا کے بارے میں بنا سوچے ہی بالغ ہوچُکے تھے ۔سویت کے سکولوں کے اندر خُدا کو ایک قدیم شخصیت یا ایک توہم کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یسوع مسیح کو ایک تاریخی شخص یا دُنیاوی مذہب کی بنیاد رکھنے والے شخص کے طور پر پیش کیا جاتا تھا ۔وہ خُدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے کیوں کہ اُنہوں نے کبھی بھی اُسکے بارے میں کوئی چیز پڑھی یا سُنی نہیں تھی ۔ اِن نوجوان لوگوں کو انجیل کاپرچار کرنے کے حصول کے لیے اُنہیں پہلے خُدا کے ناموں اور رُتبوں کا سمجھنا تھا ۔

مغرب سے کسی مسیحی کے لیے یہ سمجھنا بُہت مُشکل ہے ، لیکن دُنیا کی زیادہ تر تہذیبوں کے اندر ابھی تک مسیحیت نے فروغ نہیں پایا ہے ۔ ہمارے اِردگرد دُنیا کے خوبصورت رنگوں میں ڈرامائی طور پر خدا پہ ایمان رکھیے ۔دُنیا کے اندر ایسے کروڑوں لوگ موجود ہیں جو یا تو خُدا کے بارے میں جانتے ہی نہیں ہیں یا خُدا کے بارے میں کسی غلط نظریے کے قائل ہیں ۔مشرق میں زیادہ ترلوگ شانِ خُداوند کے نظریے کے بارے میں مادی نظریے یا باطنیت کے قائل ہیں ۔مغرب کے اندر تقریباً اوسط لوگ جھوٹی مسیحیت کے جدید نظریے کاشکار ہوچُکے ہیں ۔ مغربی لوگ خُدا کے بارے میں وجود اعلٰی ۔عقلیت ،عدمیت ،اور فلسفہ وجودیت کی رو سے سوچنے کے قائل ہیں ۔جدید فلسفہ خُدا کی صِفتی حقیقت سے انکار کرتا ہے اورحقیقت اور فنا پذیری کو ملتا جُلتا اور ہماری ذاتی سمجھ بُوجھ ہونے کااعلان کرتا ہے ۔ اسطرح سے خُدا کو غلط طور پر انسان کی اپنی ذاتی شبیہہ پر خلق کیا گیا ہے ۔

انسان کے فلسفے حقیقت کے بارے میں ہی اہم سوالات کرتے ہیں ۔کیا کائنات کی تخلیق سے پہلے کسی شخص یا کسی چیز کا وجود تھا ؟ وقت کے شروع میں کیا کوئی بُہت بڑی حقیقت موجود تھی ،کیا ایک بڑی وجہ کاکوئی موجب موجود تھا ؟ ۔ انسان کاوجود کائنات کے اندر کیسے قائم ہوا ؟۔ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ہم وجود میں آئے ہیں ؟ ہم کیسے جانتے ہیں حقیقت کیا ہے ؟ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ کیا غلط اور درست کے درمیان کوئی واقعی ہی بڑا فرق موجود ہے ؟ تاریخ ہمیں کہاں لے جارہی ہے ؟
انسان کے فلسفوں نے بُہت سارے دلچسپ مباحثوں اور بُہت سارے مسلوں کو حل کرنے کے طریقوں کا انتخاب کیا ہے ، لیکن زیادہ تریہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ بالاآخر ہم کبھی بھی اِن سوالوں کے جواب یقینی طور پر نہیں جان سکتے ہیں ۔
جدید تھیوری یہ تعلیم دیتی ہے کہ ایک ایسی چیز ہے جِس کو جاننا اور پہچاننا ممکن نہیں ہے ؛ کوئی بھی پاک ذات موجود نہیں ہے ؛ حقیقت بشری سمجھ بوجھ کاتقاضا ہے ۔ اس کو پہچانے بغیر ہی جدید دُنیا میں بُہت سارے لوگوں نے نظریہ اضافیت کے فلسفے کا انتخاب کررکھا ہے ۔وہ غیر ناقدانہ ،کھُلے دماغ ، اور ہر ایک نظریے کو قبول کرنے والے ہیں ۔ زندگی بنا مطلب کے ایک عمل ہے ۔ زندگی کے اندر کوئی بھی حتمی عمل نہیں ہے ۔ کوئی بھی چیز کامل نہیں ہے ۔
دوسری جانب مسیحیت اس چیز کادرس دیتی ہے ، کہ خُدا کا کردار قابلِ فہم ہے اور ناتبدیل ہونے والا ہے ہم جان سکتے ہیں کہ خُدا وجود رکھتا ہے ، وہ کون اور کِس کی مانند ہے ۔ حقیقت اور فنا پذیری کی بنیاد خُدا کے کردار پر ہے اور اُس اُسکے کلام بائبل میں ظاہر کیا گیا ہے ۔

پہلی مرتبہ جب میں نے خُدا کو جانا تھا تو میں نے اس چیز کو پہچانا تھا کہ وہ صرف اور صرف تصورات کا ایک خیال نقش نہیں تھا ،کیوں کہ وہ اُس مانند بالکل بھی نہیں تھاجِس طرح سے میں نے اُسکے ہونے کا تصور کررکھا تھا ۔
جب ہم پہلی مرتبہ خُدا کو جانتے ہیں تو ہمیں نئے سِرے سے ا،س چیز کی تعلیم درکار ہوتی ہے کہ خُدا کون ہے اور وہ کِس کی مانند ہے ۔یہاں پر میں مختصر طور پر مسیحیت کی طرف سے پیش کیے گئے نظریے کو بیان کروں گا ۔ میں پھر اُس پر چند مختصر تفصیلات پیش کروں گا جِس طرح سے وہ بنیاد ہماری سوچ میں ہمارے ذاتی جائزے اور ہمارے گردونواح کی دُنیا کے جائزہ کاتعین کرتی ہے ۔

خُدا کے نام

“خُدا کون ہے ؟“اس سوال کا جواب دینے کے لیے ،یہ پوچھنا استدلالی ہوگا ،“خُدا کیا کہتا ہے کہ وہ کون ہے ؟“جوابات کے لیے ،ہمیں خُدا کے کلام میں نظر کرنی چاہیے ۔بائبل کے اندر خُدا کے بُہت سارے نام شامل نہیں جو ہمیں اُسکے کردار اور فطرت کے بارے میں کچھ خیال پیش کرتے ہیں۔ پرانے عہد نامے اور نئے عہد نامے کاخُدا ایک ہی ہیں ۔پُرانے عہد نامے اور نئے عہد نامے میں موجود خُدا کے عبرانی اور یونانی ناموں کے اندر اُس کے کردار اور فِطرت کے حوالے سے ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے ۔ اُسکے نام ،کردار اور فِطرت ہمیشہ سے لیکر ہمیشہ تک نہ تبدیل ہونے والے ہیں ۔

جدید ذہن کے لیے اس کی تھوڑی بُہت مزید وضاحت درکار ہے۔ اِن دِنوں جب لوگوں کی اکثریت خُدا فہم اور بآسان فیض رساں خیال کرتی ہے ،تو بعض اوقات لوگوں کے لیے پُرانے عہد نامے کے خُدا یہواہ ،راستبازی کے خُدا اور اخلاقی طور پر کامل خُدا پر ،نئے عہد نامے کے یسوع مسیح ،اور پیار بھرے خُدا کے طور پر نطر کرنا بُہت مُشکل کام ہے جو کہ انسانی طور پر زندہ رہنے کے لیے جسمانی طور پر زمیں پہ تشریف لایا تھا اور ہمارے لیے مواء تھا تاکہ ہمارے گُناہ معاف ہوسکیں۔ لیکن ہم پُرانے اور نئے عہد نامے کے یونانی اور عبرانی ناموں سے دیکھتے ہیں کہ وہ ایک ہی خُدا ہے ۔تو ہم اسکو مزید طور پر دیکھیں گے جب ہم خُدا کے رُتبوں پر نظر کرتے ہیں۔

پُرانے عہد نامے کے خُدا کے نام

“EL یاElohim”۔۔۔۔۔۔” خُدا “یا “خداﺅں “۔“EL خُدا کے بُہت سارے دوسرے ناموں سے پہلے ایک سابقے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ Elohim ایک جمع کانام ہے جوکہ تثلیث کی نشاندہی کرتا ہے ۔یہ اُس وقت استعمال ہوا ہے جب خُدا ایک عہد کا جواب دیتا ہے ، ایک وعدہ کرتا ہے یا چیزوں کو وجود میں لاتا ہے ۔
یہ خُدا باپ ،خُدا بیٹے اور خُدا پا ک روح کے طور پر خُدا کے رُتبے کے تبدل اور اتفاق کی نشاندہی کرتا ہے ۔

ELYON ۔۔۔۔“سب سے اعلٰی خُدا ۔یہ نام خُدا کی بُلند وبالا تعریف وتوصیف کی نشاندہی کرتا ہے ۔وہ ایک ایسا خُدا ہے جِس کو مقدس سمجھا جاتا ہے، جِس کی عبادت کی عبادت کی جاتی ہے اور خوف رکھا جاتا ہے۔

EL.Shaddai ۔۔ “قادرِمطلق “خُدا ۔یہ نام مقدس بزرگی پر زور دیتا ہے لیکن یہ “خُدا کی جانب سے حفاظتی نگہداشت “یا انسان کی بھلایء کے لیے قدرت کے اوپر اختیار کی بھی نشاندہی کرتا ہے ۔قادرِمطلق قدرت کی قوتوں کو اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔یہی خُدا کے لوگوں کے لیے ترقی اور برکت کاذریعہ ہے۔ یہ نام اکثر وبیشتر یہ نشاندہی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ خُدا پیار کرنے والا باپ ہے جو اپنے لوگوں کے لیے دوستی اور رشتے میں داخل ہوتا ہے۔

EL.Olam ۔۔ “ ہمیشہ سے ہمیشہ تک رہنے والا “خُدا ۔یہ کبھی کبھا ر استعمال ہونے والانام ہے ،البتہ ،یہ نشاندہی کرتا ہے کہ خُدا شروع سے لیکر آج تک موجود ہے ۔ وہی شروع سے لیکر آج تک خُدا ہے ۔
لفظ olamکِسی “پوشیدہ “یا “چھپی ہوئی “چیز کے معنی رکھتا ہے ۔olam کاترجمہ بعض اوقات “ہمیشہ سے ہمیشہ “کیا جاتا ہے ۔اس بنا پر ہی خدا کے وقت سے پہلے ایک ایسی جگہ پر وجود میں ہونے کا نطریہ قائم ہے جِس کو انسان ناپ ہی نہیں سکتا ہے ۔ پس ہمیشہ سے لیکر ہمیشہ تک ہے، یہ نشاندہی کرتا ہے کہ وہ مکمل طور پر صابر اور داناء ہے۔

Adonai…۔۔“خُدا وند “خُدا ۔وہی پوری کائنات کابادشاہ ،حاکم اور رزاق ہے ۔ یہ نام نشاندہی کرتا ہے کہ خُدا ہی اپنے لوگوں کا مختار اور نگران کار ہے۔ جب ہم خُدا کو خُدا وند کے طور پر پہچان لےتے ہیں ،تو ہم اپنے حقائق کادامن چھوڑتےہیں ۔ ہم مزید براں اپنے آپ کے تابع نہیں ہیں ۔ ہم اُسکی مرضی کے تابع ہیں اور اُسکے احکام کی فرمانبرداری کرتے ہیں ۔

Yahweh.. یا یہواہ۔۔” میں ہوں “خُدا ۔یہ خُدا کا سب سے بڑا نام ہے ۔ایک ایسا نام جِس کا خُدا کے لوگ اسرائیل والے سب سے زیادہ احترام کرتے تھے۔ یہ نام نشاندہی کرتا ہے کہ صرف ایک ہی واحد اور سچا خُدا ہے۔ یہ نام سب سے پہلے خروج 3باب14آیت کے اندر موسٰی پر ظاہر ہوا تھا ۔
خُدا نے اپنے بارے میں اعلان کیا تھا “میں ہوں جو ہوں “کیوں کہ موسٰی مصریوں کو بتانا چاہتا تھا کہ عبرانی خُدا کانام کیا تھا ۔یہ دُنیا کی غیر قوموں کی نشاندہی کرتا ہے جو بُہت سارے جھوٹے خداﺅں کی پرستش کرتے تھے ،کہ یہوا ہ ہی ایک واحد سچا خُدا ہے جو موجود ہے ۔بائبل کے بُہت سارے ترجموں کے اندر یہواہ کی نشاندہی کرنے کے لیے لفظ “خُداوند “کو بڑے حروف تہجی میں استعمال کیا گیا ہے ۔

آسمانی لشکروں کایہواہ:۔

“لشکروں کاخُدا “بائبل کی نبوت کی کتابوں میں خدا کے نام کی استعمال ہونے والی یہ عام حا لت ہے۔ یہ مکمل حالت جلال کے بادشاہ کی ہستی کی عکاسی کرتی ہے جِس کو فرشتوں کا یک بڑا ہجوم گھیرے رکھتا ہے نبوت کی کتابوں کے اندر اس کااستعمال فتح مند خُدا ،اور آسمانی لشکروں کے سب سے بڑے خُدا کے بارے میں بات کرنے کےلیے کیا جاتا ہے ،جو کہ اپنے تمام تر دُشمنوں کے اوپر فتح پاچُکا ہے ۔

Immanuel یا عمانوئیل” خُدا ہمارے ساتھ ہے “۔شرعی طور پر لفظ عبرانی ہے کیونکہ “خُدا ہمارے ساتھ ہے “۔پُرانے عہد نامے کے اندر یہ لفظ صرف دومرتبہ استعمال کیا گیا ہے (یسعیاہ 7باب14آیت ، 8باب10آیت) اور ایک مرتبہ نئے عہد نامے کے اندر استعمال ہوا ہے(متی 1باب23آیت)یہ یسوع مسیح کی آمد خُدا کے انسانی شکل اختیار کرنے یا شرعی طور پر خُدا کے ہمارے ساتھ ہونے کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔

نئے عہد نامے کے خُدا کے نام :۔

Theos… ۔۔“خُدا “عبرانی میں کسی بھی مادہ پرست دیوتا کےلیے یہ ایک عام لفظ ہے ،لیکن نئے عہد نامے کے اندر یہ حالت EL.Yisrael. کی جگہ لے لیتی ہے ،جوکہ پُرانے عہد نامے کے اندر اسرائیل کاخُدا ہے ۔اکثر وبیشتر اس کو قابض اسم ضمیر کیساتھ استعمال کیا گیا ہے ،جیسے ،“میرا خُدا “تہمارا خُدا “یا “ ہمارا خُدا “
ہے۔

Kurios… ۔۔“خُدا وند “ یہ نام خُدا پر لاگو ہوتا ہے اور خاص طور پر یسوع مسیح پر ۔Kurios عبرانی لفظ Adonaiاور یہواہ کی جگہ لیتا ہے۔ خُدا ہر چیز پر قابض اور حاکم ہے خاص طور پر اپنے لوگوں پر ۔

PATER… ۔۔“باپ “یہ نام پُرانے عہد نامے کے اندر بھی یہ نشاندہی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ خُدا اپنے لوگوں کا اسرائیل کاباپ ہے۔ نئے عہد نامے کے اندر یہ خاص طور پر تثلیث کے پہلے شخص، یسوع مسیح کے باپ کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اس کو اس لحاظ سے بھی استعمال کیا گیا ہے کہ خُدا فرداً فرداً لوگوں کا باپ ہے جنہیں خُدا کے خاندان میں لے پا لک بنایا گیا ہے ۔ خُدا کے فرزند جائز طور پر خُدا کے بیٹے اور بیٹیاں اور خُدا کو “ہمارا باپ “کہنے کاحق رکھتے ہیں۔ Paterبعض اوقات خُدا کو سب چیزوں کا خالق قرار دینے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔

باپ،بیٹا اور پاک رُوح :۔

خُدا کی خدائی کے اکٹھ کی نشاندہی کرنے کے لیے تثلیث کا ذ کر پورے نئے عہد نامے کے اندر کیا گیا ہے ۔ اسرائیل کاخُدا واحدElohim ہی ،خدا باپ ،خدا بیٹا یسوع مسیح ،اور خُدا پاک روح ہے۔
روحانی پیرے جِن میں یہ نام استعمال ہوتے ہیں وہ عبارتوں کو مطلب کو سمجھنے کےلیے سازگار ہیں۔ ہم یہ بھی واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کِس طرح سےپُرانے عہد نامے میں موجود خُدا کے عبرانی نام، نئے عہد نامے میں موجود خُدا کے یونانی ناموں سے مطابقت رکھتے ہیں ۔

خُدا کے رُتبے اور نام

بائبل کے مطابق، خُدا لا انتہا، ذاتِ واحد، تثلیث، اعلٰی ذات جاری وساری، ہمہ داں، فرماں روا اور مُقدس ہے۔ یہاں پر اِن میں سے ہر ایک رُتبے کی مختصر تعریفیں موجود ہیں ۔

خُدا لاانتہا ہے : ۔ وہ ہرجگہ موجود ہے۔ ایک محدود انسان اُسکی پیمائش نہیں کرسکتا ہے نہ ہی اُسکو سمجھ سکتا ہے۔ اُسی نے ہی تمام تر حقیقت کو وجود بخشا ہے۔ نام “میں ہوں جو ہوں “( خروج 3باب14آیت)
اِنسان کو اس چیز کی نشاندہی کرنے کے لیے دیا گیا تھا کہ خُدا اس طرح سے موجود ہے جِس طرح سے نہ کوئی چیز وجود رکھتی ہے اور نہ ہی موجود ہوسکتی ہے۔ ہر ایک چیزکا ابتدائی سبب اور بنیادی حقیقت اور واحد ذاتی وجود رکھنے والی ذات خُدا ہی ہے ۔

خُدا ذاتِ واحد ہے : ۔ ہم خُدا کا حوالہ وہ کے طور پر پیش کرتے ہیں بطور یہ نہیں پیش کرتے ہیں ۔وہ محض ایک قوت، تونائی، یا کوئی مرکب نہیں ہے بلکہ ایک واحد ہستی ہے۔ خُدا ایک شخصیت رکھتا ہے۔ خُدا ذاتی ضمیر اور ذاتی مرضی کاما لک ہے۔ خُدا سوچتا اور عمل کرتا ہے۔

خُدا تثلیث ہے : ۔ وہ صرف ایک نجی شخصیت ہی نہیں ہے، بلکہ درحقیقت ایک خُدا میں باپ، بیٹا اور پاک روح تین اشخاص ہیں۔ ایک ہی بڑی خدائی کے اندر ہمیں تین “اشخاص“یا شخصیتوں میں فرق کرنا ہے جو کہ نا تو تین خُدا ہیں، نہ ہی ایک خُدا کے تین، انداز، حِصے یا پہلو ہی ہیں، بلکہ ہمسری اور ہم دوامی طور پر ایک ہی خُدا ہے۔ تثلیث شاید کہ ہمیں ایک پوشیدہ متناقص بالاذات قول دکھائی دیتا ہو۔ لیکن خُدا کو اُسکی اپنی ذات اور انسان کے ساتھ اُسکے ابدی رشتے میں شخصی طور پر سمجھنا بُہت اہم ہے۔ وہ ایک ایسا خُدا ہے جِس کو ہم شخصی طور پر جان سکتے ہیں۔ مسیحیوں کےلیے، وہ ہمارا باپ اور بھائی دونوں چیزیں ہیں اور اُسکی روح ہمارے اندر زندہ رہتی ہے۔

خُدا اعلٰی ذات ہے : ۔ وہ ہماری ذاتی دُنیا سے ہٹکر کسی اور دُنیا سے ہے۔ اُسکی فِطرت کسی اور دُنیا کی ہےخُدا ہمارے تصورات اور خیالات سے بالاتر ہے۔ اُسے ہماری دُنیا کے اندر کسی بھی چیز سے پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وہ انسان یا کسی دوسری چیز کی مانند نہیں ہے جس کو اُس نے خلق کیا ہے۔ وہ ہر چیز سے بالاترہے۔

خُدا جاری وساری ہے : ۔ وہ ہمارے ساتھ بھی ہے ۔خُدا ہر جگہ موجود ہے۔ ہم اُسکی موجودگی کو اپنے گردونواح میں محسوس کرسکتے ہیں۔ خدا ہماری مادی دُنیا کے اندر موجود ہے اور انسان کی شبیہہ میں اُسکا عکس د کھائی دیتا ہے۔ یہ شاید کہ اُسکی اعلٰی ذات کے برعکس دکھائی دیتا ہو، لیکن خُدا روحانی ہے مادی نہین ہے۔ وہ ہمارے ساتھ اس طرح سے موجود ہے جِس کو ہم سمجھتے نہیں ہیں ۔ خُدا ہرایک چیز سے بالاتر ہے اور اسکے ساتھ ساتھ وہ پوری کائنات کو سہارا دیے ہوئے ہر ایک چیز کے اندر موجود ہے ۔

خُدا ہمہ داں ہے : ۔ وہ سارا کچھ جاننے والا ہے۔ خُدا تاریخ کی ابتداء اور انتہا کو دیکھتا ہے اور پوری ابدیت کی پیمائش سے واقفیت رکھتا ہے ۔خُدا ہی علم اور حقیقت کاحتمی منبع ہے ۔ سب حقیقت خُدا ہی سے ہے خواہ وہ کہیں بھی موجود کیوں نہ ہو۔ وہ وقت کے شروع سے قبل ہی ہمیں شخصی طور پر جانتا تھا، جب پیٹ کے اندر حمل میں لیے گئے تھے۔ وہ ہماری زندگی کے تما م حالات، اوقات اور ہماری موت کے طرزِ عمل سے واقف تھا اور اس چیز سے اگا ہ تھا کہ ہم کہاں پر ابدیت بسر کریں گے۔

خُدا فرمان روا ہے : ۔ وہی سب سے طاقتور ہے۔ یہ خُدا کی لاانتہا فِطرت کا ایک مزید پہلو ہے۔ خُدا پوری کائنات پر حکومت کرتا ہے اور تاریخ کی تمام تر تفصیلات کی طرف توجہ دینے کی قابلیت کھتا ہے۔ پوری کائنات کے اندر تمام تر واقعات اُسکے اختیار کے تابع ہیں۔ پوری تخلیق اور تاریخ اُسکے اختیار کی تابع ہے۔

خُد اپیار ہے : ۔ وہ نیک اور مدد گار ہے۔ خُدا کاانسان اور تخلیق کی طرف حتمی مقصد ہماری حمایت کرنا اور ہمیں اپنے پیار بھرے رشتے کی طرف کھنچا ہے۔ وہی اپنے پیار بھرے رشتے کو ممکن بنانے کے لیے حتمی قربانی ادا کرتا ہے ۔اُسکے لوگوں کی طرف اُسکے تمام اعمال کی بنیاد پیار پر ہے۔

خُدا مقدس ہے : ۔وہ مکمل طور پر راستباز ہے ۔ اُسکے اندر کوئی بھی بُرائی نہیں ہے۔ اُس کامقابلہ صاف روشنی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے جِس پر تاریکی کبھی غالب نہیں آسکتی ہے۔

پاک پن سب سے بالاتر ہے اور اُسکے کردار کے تمام رُتبے اس کے اندر موجد ہیں۔ کیوں کہ خُدا لاانتہا ہے، اس لیے کسی ایک رُتبے کاکسی دوسرے سے بڑا ہونا ناممکن ہے۔ البتہ، خُدا کے پاک پن میں ہی اُسکے سارے رپتبے بند ہیں۔ وہی خُدا مقدس، پاک پیار، مقدس فرماں روا، مقدس فضل، اور پاک تثلیث وغیر ہ وغیرہ ہے۔ وہ اس ہر جیس میں مقدس ہےجو کچھ وہ کرتا ہے اور جو کچھ و ہ ہے۔

خُدا کی مزید تعریفیں بیان کی جاسکتیں ہیں۔ بائبل ہمیں خُدا کے بُہت سارے نام اور رُتبے عطا کرتی ہے۔ چونکہ خُدا لاانتہا ہے، اس لیے ہم کبھی بھی اس زندگی کے اندر اسکا مکمل عِلم حاصل نہیں کر پائیں گے۔ لیکن بعض ایسے حسبِ ضرورت اور جامع بیانات موجود ہیں جو اطمیںان بخش طور پر خُدا کے ناموں اور رُتبوں کو بیان کرتے ہیں۔ اِن میں سے ایک ویسٹ مِنسٹر اعتراف کے دوسرے باب کے اندر ملتا ہے :۔
“خُدا موجود ہے لیکن صرف ایک ہی زندہ اور سچا خُدا موجود ہے ،جوکہ اپنے وجود اور کاملیت میں لامحدود ہے۔ ایک اسب سے زیادہ پاک روح ہے، ناقابلِ دید ہے، بنا جسم حِصوں یا وفور جذبات کے ہے، ناقابلِ تبدل، عظیم الشان، ابدی، ناقابلِ فہم، قادرِ مطلق، سب سے زیادہ عقلمند، سب سے پاک تر، سب سے زیادہ آزاد، نہایت کامل ہے سارا کچھ ہر وقت اپنی ناقابلِ تبدل اور راستباز مرضی کے مطابق اپنے فتح مند جلال کے لیے کرنے والا ہے، نہایت زندہ، شفیق، رحیم، دیر تک دُکھ اُٹھانے والا، سچائی اور راستبازی میں فراواں، بد کرداری، قانون شکنی اور گُناہ کو معاف کرنے والا ہے، اُن کو بدلہ دینے ولا ہے جو ان تھک اُسکو ڈھونڈتے ہیں، اور مزید براں اپنی عدالت میں برھق اور خطر ناک ہے، تمام گُناہ سے نفرت کرتے ہوئے، اور جو کہ کسی بھی شرط پر گُناہ گارون کو نہیں چھوڑیے گا ۔
“تمام جلال ،راستبازی، بزرگی خُدا میں ہے اور خدا سے ہی ہے۔ اور واحد طور پر اپنے آپ میں اور اپنی ذات کے اندر کود مختار ہے۔ کسی بھی ایسی مخلوق کا محتاج نہیں ہے جِس کو اس نے خود بنایا ہے نہ ہی اُن سے کوئی جلال اخذ کررہا ہے، بلکہ اُن میں، اُن کے ذریعے سے ،اُن کے اندر اور اُن کے اوپر اپنا جلال ظاہر کررہا ہے، ہر ایک چیز کے وجود کی وہی تنہا بنیاد ہے۔
جس سے، جِس کے وسیلے سے، اور جس کے لیے سب چیزین ہیں، اور جو کچھ اُسکے لیے باعثِ خوشنودی ہے، اُن کے ذریعے سے اُن کے لیے اور اُن کے اوپر ویسا ہی کرنے کے لیے سب سے بُرا فرماں روا ہے۔ اُس کی نظر میں سب چیزیں کُھلی اور ظاہر ہیں، اُسکا عِلم لامحدود، اور غلطی سے پاک، اور مخلوق پر آزاد ہے، تو اس طرح سے اُس کےلیے کچھ بھی حادثاتی یا غیر یقینی نہیں ہے۔ وہ اپنے تمام تر منصوبوں، اپنے تمام اعمال اور اپنے تمام احکام میں کامل ہے۔ فرشتوں اور انسانوں سے اُسکی عزت ہے، اور دوسری مخلوق جو بھی اُسکی عبادت، خِدمت، یا فرمانبرداری کرتی ہے اُن کے لیے یہی درکار ہے کہ وہ اسکو بھلا لگنا چاہیے۔
“ خُدا کی خدائی کے اکٹھ میں ایک ہی مرکب، قوت، اور ابدیت کے تین شخص ہیں، خُدباپ، خُدا بیتا اور خُدا پاک روح۔ باپ کسی سے نہیں ہے نہ وہ کسی سے لیا گیا ہے ناہی اس سے کوئی آگے نکلا ہے، بیٹا ابدی طور پر باپ سے نکلا ہے۔ پاک روح ابدی طور پر آگے باپ اور بیٹے میں سے چلتا ہے “
خُدا کے اِن میں سے ہر ایک رُتبے اور نام پر مزید براں روشنی ڈالنی اس چھوٹی سی جگہ ممکن نہیں ہے۔ میں نے خُدا کے ناموں اور رُتبوں کو صرف متعارف کروایا ہے۔ ایسے اور بُہت سے ہیں۔ لیکن یہ وہی ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں کیونکہ یہ جھوٹے خداﺅں اور دوسرے مذاہب کے دُنیاوی جھوٹے نظریات سے اُسکا فرق بیان کرتے ہیں۔

دُنیاوی نقطہ نظر کیا ہے

کسی شخص کے دُنیاوی نطریے یا “دُنیا کے جائزے “کے بارے میں گفتگو، خدا کے ناموں اور رُتبوں سے متعلق باب کے اندر شاید کہ مناسب نہ معلوم ہوتی ہو لیکن اِن دونوں کے اندر ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے ۔خُدا کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ ہی ہمارے دُنیاوی نقطہ نظر کو شکل عطا کرتی ہے۔ اسی طرح ہی ہمارا دُنیاوی جائزہ جِس طرح سے ہم خُدا پر نظر کرتے ہیں اُس پر اثر انداز ہوگا ۔
دُنیاوی نقطہ نظر کایہ تصور کیا کہلاتا ہے؟ دُنیاوی نقطہ نظر مکمل طور پر ہمارے دُنیاوی گردونواح کے ساتھ ہماری ذاتی رِشتے کی سمجھ بوجھ ہے۔ محض یہ قسمت اور مقصد کی سمجھ بوجھ ہے ۔
بُہت سارے دُنیاوی جائزے آج دُنیا میں موجود لوگوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر انسانی مسائل کو عقلی تدابیر سے حل کرنے کا عقیدہ ایک دُنیاوی نقطہ نطر ہے، جو کہ یہ کہتا ہے کہ کائنات کادارومِدار اِنسان اور اُسکی کامیابیوں پر ہے۔ مارکسیت کے استیصال پر ہے ۔
دُنیا کے بڑے بڑے مذاہب کی بنیاد دُنیاوی نظریات پر ہے۔ ہندو مذہب ایک دُنیاوی نظریہ ہے جِس کی بنیاد بُہت سارے دیوتاﺅں پر، اور نہ ختم ہونے والے زندگی اور موت کے چکر اور انسانی دُکھ اور تکلیف کی ناگزیریت پر ہے۔ دوسری جانب اسلام ہے جو کہ شہادت، اور قوت کے بل بوتے پر فتوحات کامذہب ہے اور مُلک کی پولیس میانہ روی اور انکساری زبردستی لاگو کرتی ہے۔ اسطرح سے اِن میں سے کسی بھی تحریک اور مذہب کو سمجھنے کے لیے، ہمیں اُس دنیاوی نقطہ نظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے جِس پر اُن کی بنیاد ہے۔
دُنیاوی نظریے کی اہمیت کو زیادہ شِدت کیساتھ بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی مذہبی تحریک کے لیے یہ ایک ترغیبی عامل ہے جو کہ اُسکے لیے پھیلنے، پھولنے، ظاہر ہونے یا حل ہونے کاسبب بنتا ہے۔ کسی خاص تحریک کو ماننے والے اپنے دنیاوی نقطہ نطر کا جائزہ اُس پر عمل کرنے اور اثرات پر عمل پیرا ہوکر لیتے ہیں۔

نیچے دیا گیا خاکہ اسکی وضاحت کرتا ہے۔

کسی بھی بشر کا دُنیاوی نقطہ نظر اُن کےلیے اُسکی بنیاد پر عمل کرنے کاسبب بنتا ہے جِس طرح سے دنیا کے اندر وہ اپنے کردار کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ عمل سے ایک ایسا نتیجہ سامنے آئے گا جِس کامشاہدہ کرنے پر علم ہوگا یا اُن کا دُنیاوی نقطہ نظر غلط ثابت ہوگا۔
مثال کے طور پر ایک مارکسیت والا یہ ایمان رکھتا ہے کہ گروہی دُکھ تکلیف ناگزیر ہے، اس طرح سے وہ موجودہ نطام میں خلل اندازی برپا ہوتی ہے تو اس سے اُس کے دُنیاوی نقطہ نظر کی تصدیق ہوجائے گی اس طرح سے یہ اُس کےلیے اور بھی بری انقلابی سرگرمی کاسبب بنے گا، یہی دُنیاوی نقطہ نظر ہی مارکسیت کے یورپ اور ایشیاء دونوں جگہوں میں جنگلی آگ ہے کیونکہ معاشی تباہی اور انسانی دُکھ کے نتائج کی بنیاد پر یہ غلط ثابت ہوچکی ہے ۔
یسوع کی بادشاہی کوفروغ بخشنے کے حصول کے لیے مسیحی دنیاوی نظریے کو بہتر بنانا نہایت ہی اہمیت کاحامل ہے جب اُن کے اپنے ذاتی بوجھ میں بگاڑ کے تحت غلط نظاموں کے اندر کہرام مچا پڑا ہے۔ مغربی تہذیب کے اندر مسیحت سے انکار کی ایک وجہ دُنیاوی نقطہ نظر کی بنیاد بائبل پر نہ ہونا ہے۔ اس کی بجائے ماد یت، خود غرضی اور لالچ کاثقافتی دُنیاوی نقطہ نظر ایک قوی تر تصور بن چکا ہے۔ اس مسلے کی طرف دھیان دینے کے لیے پہلا مرحلہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ مجموعی طور پر مادہ پرست مغرب روحانی طور پر دیوالیہ نقطہ نظر کاقائل ہوچکا ہے ۔
اس طرح اگر ہمیں دُنیاوی نقطہ نظر کی اہمیت کو مناسب طور پر سمجھنا ہے تو ہم اسے قوانین کے ایک ایسے مجموعے کے طور پر سمجھنا چاہیے جو کہ ہمارے وجود کی اتھاہ گہرائیوں میں مقیم ہوتے ہیں۔ البتہ قدروں کے اس مجموعے کے اندر تبدیلی سے ہمارے اعمال کے اندر ایک تبدیلی رونما ہوگی۔ اگر ہمیں ایک ایسے دُنیاوی نقطہ نظر کی تعلیم دی جاتی ہے جِس کی بنیاد بائبل پر ہو تو ایک دوہری تبدیلی واقع ہوگی۔ پوری دُنیا میں موجود ایماندار اِصلاح کاتجربہ کریں گے اور بشارت دُنیاکے اندر پہلے سے کِسی بھی دوسر کے مقابلے میں زیادہ اثر کرے گی۔

مسیحیت کے دُنیاوی نقطہ نظر کے اندر بڑے بڑے عناصر کچھ یوں ہیں :۔
1 ۔ مسیحیت کے دُنیاوی جائزے کی بنیاد صرف اور صرف یسوع مسیح پر ہونی چاہیے۔ “کیونکہ سوا اُس نیو کے جو پڑی ہوئی ہے اور وہ یسوع مسیح ہے کوئی شخص دوسری نہیں رکھ سکتا ۔ بُہت سارے دنیاوی نظریے آگے کی طرف بڑھتے جاتے ہیں جن کی توجہ کا نقطہ مرکز یسوع پر مرکوز نہیں ہے، بلکہ اُن کی بنیاد دُنیاوی واقعات کے اوپر ہے۔ وہ دُنیاوی جائزے بالاخر غلط نطریات کے طور پر انجام کو پہنچیں گے۔
2 ۔ مسیحیت کے دُنیاوی نقطہ نظر کو زمیں پر خُدا کے لوگوں کے لیے اُس کے مشن کو بیان کرنا چاہیے۔ بلا شُبہ اس دُنیاوی جائزے کے اندر تجدید اور روحانی بیداری زمیں پر خُدا کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے بڑے ذرائع ہیں۔ یہ منسٹری کو معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے اور منسٹر ی کو معاشرے کی ہر سطح پر انجیل کو پھیلانے کے لیے استعمال کرے گا ۔ معاشرہ پھر تبدیل ہوگا اور پھر یسوع کی باتوں اور حکموں پر زیادہ عمل پیرا ہوگا۔
3 ۔مسیحیت کانقطہ نظر ایمانداروں کے وجود کے ہر علاقے میں یسوع کو بیان کرنے والا ہونا چاہیے ۔خاندانی رشتے،کام، مالی حالت، سیر وتفریح، سیاست اور ہر ایک جدوجہد یسوع مسیح کی شانِ خُداوندی کے عین مطابق ہونی چاہیے۔ ہر چیز میں یسوع کا کام شامل ہوگا۔ اگر وہ سب کا خُدا وند نہیں ہے تو وہ بالکل بھی خُداوند نہیں ہے۔ تمام معاملات کو مسیحیت کے دُنیاوی نقطہ نظر سے سمجھنا چاہیے۔ اُس دقیق سے جِس کا عام طور پر جائزہ لیا جاتا ہے مسیحیت چھانٹ کر سامنے آتی ہے۔

مسیحیت کا دُنیاوی نقطہ نظر ثقافت کو اچانک سے تبدیل کرتا ہے۔
ایک سب سے اہم قوت جِس نے مغربی ثقافت کو ایک نئی شکل دی ہے وہ مسیحیت ہے۔ یہ مذہب سے کہیں بڑھکر تھا جِس نے پہلی چند صدیوں کے دوران مسیحیوں کے دُنیاوی نقطہ نظر کو ایک نئی شکل عطا کی تھی ایسے بُہت سارے مذاہب موجود تھے جو لوگوں کی اُس ثقافت اور توجہ کے مدِ مقابل تھے جو رومی حکومت پر مشتمل تھی ۔
Syncretistic مذاہب اور فلسفوں کی ایک بُہت بڑی صف آرائی رومی حکومت کو بیان کرتی ہے۔ پہلی صدی کی مغربی دُنیا مذہب کے لیے بھوکی پڑی تھی ۔اسکے باوجود قدیم یونانی اور لاطینی مذاہب نے اس طرح کا شاندار دُنیاوی نقطہ نظر پیش نہیں کیا تھا ۔بُہت سارے لوگوں نے مشرقی باطنیت اور یونانی فلسفے کارُخ کیا تھا اور چند ایک مسیحیت کی طرف پھرے تھے۔
مسیحیت کادُنیاوی نقطہ نظر ایک لامحدود اور شخصی خدا پر قائم رہا جو کہ یہودی نبیوں کی معرفت مخاطب ہوتا رہا اور جِس نے اپنے آپ کو یسوع مسیح کی زندگی اور تعلیمات میں ظاہر کیا تھا۔ ابتدائی مسیحیوں کے پاس خُدا کے بارے اور کائنات کے بارے میں ایسا عِلم موجود تھا جِس کی بنیاد نزول پر تھی کسی قیاس پر نہیں تھی۔ اُن کے ہاں شاندار دُنیاوی قدر یں موجود تھیں جِن کی رو سے زندگی بسر کی جاتی تھی اور جِس کے ذریعے سے وہ اپنے معاشرے میں انصاف کرتے تھے۔ اس سب سے بڑھ کراُن کے ہاں ایک شخص کے بُنیادی احترام کے لیے ایک ایسی قدر موجود تھی جِس کی بنیاد اس عقیدے پرتھی کہ ہر ایک انسان بے مثال ہے اور اسے خُدا کی شبیہہ پر خلق کیا گیا ہے۔
یہ دُنیاوی نقطہ نظر ایک قوت کے ساتھ روم کی بنیادی قدروں اور عقیدوں کے ساتھ ٹکرایا۔ پہلی تین صدیوں کے دوران وقفوں وقفوں سے دس رومی بادشاہوں کی حکومت کے دوران رومی حکومت کی طرف سے مسیحیوں پر طلم وتشدد کیا گیا اور اُنہیں موت کے گھاٹ اُتارا گیا تھا (کیوں کہ وہ قیصر کی عبادت نہیں کرتے تھے)۔ آدم کود کا الزام دیا گیا (کیونکہ وہ خُدا وند کے بدن میں سے کھاتے تھے)، جنسی تعلقات کاالزام لگایا گیا (“برادرانہ محبت “کی وجہ سے)
دوسری صدی کے اندر شہید جسٹن (Justin) مسیحیوں کے حمایتی نے ا،ن سزاوں کے خلاف رومی شہنشاہ Antonius Pius کو ایک خط لکھا۔ اُس کے اپنے ذاتی احوال Dialogue with Tryphoکے مطابق ،جسٹن (Justin) بیان کرتا ہے کہ کس طرح سے اُس یکِ بعد دیگر فلسفاتی نطاموں کامطالعہ کیا تھا، رواقیت، ارسطاطالیس، فیشاغور ثیت، افلاطونیت اور پھر مسیحیت کی طرف آیا تھا۔ ایک دِن جب وہ شہر، اِفسس کے بالکل باہر Aegean Sea کے پاس کھڑا تھا، تو ایک بوڑھا آدمی اُسکے پا ستشریف لایا۔
بوڑھے آدمی نے پوچھا “کیا فلسفہ خوشی پیدا کرتا ہے؟“جسٹن نے جواب دیا “ بالکل “ “اور صرف یہی اکیلا ہی پیدا کرتا ہے “۔
ایک لمبی گفتگو میں، بوڑھے آدمی نے جسٹن کو مشورہ دیا کہ ایسے بُہت سارے سولات تھے جِن کا جواب افلاطون نہیں دے پایا تھا، لیکن تمام سوالات کی وضاحت کیساتھ ایک سچا فلسفہ موجود ہے۔ وہ فلسفہ مسیحیت ہے۔ بوڑھے آدمی نے عبرانیوں نبیوں اور یسوع مسیح کی تعلیمات میں جسٹن کی راہنمایء کی۔ اُس نے جسٹن کی اس چیز میں حوصلہ افزائی کی کہ اپنی سمجھ بوجھ کو کھولنے کے لیے خُدا سے رجوع کرو ؛۔“کیوں کہ کوئی بھی اِن حقیقتوں کو تب تک نہ ہی پاسکتا ہے یا سمجھ سکتا ہے جب وہ خُدا اور یسوع کی طرف سے اُس پر ظاہر نہیں کردی جاتی ہیں “۔
جسٹن پھر اپنا بیان پیش کرتا ہے۔ جب وہ یہ اور بُہت ساری دوسری چیزیں بیان کرچکا ،جوکہ اس وقت بیان کرنا واجب نہیں ہے، تو جوکچھ اُس نے مُجھ بتایا تھا اُسکے اوپر غور وخوض کرنے پہ مجبور کرنے کے بعد اُس نے اپنی راہ لی اور میں نے اُسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا ہے ۔ لیکن میری روح میں فوراً سے ایک آگ بڑھک اُٹھی تھی، اور بنویوں کے لیے ایک عقیدت جاگ اُٹھی تھی، اور اُن کے لیے جو کہ یسوع کے دوست ہیں اُس نے میرے اوپر اختیار جمالیا تھا، اُس کے الفاظ پر غور کرنے کے دوران، میں نے دریافت کیا کہ صف اور صرف اسی کا فلسفہ ہی ےقینی اور مفید تھا۔ اس طرح سے کہا جاتا ہے کہ میں اب ایک سچا فلسفہ دان ہوں “۔
مسیحیوں کے خلاف جھوٹی سزاﺅں کو جسٹن نے رد کیا تھا، لیکن آخر کار جسٹن رومی حکمرانوں کے درمیان مسیحی ایمان کا پر چار کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا، وہ 167ء صدی عیسوی میں شہید کیا گیا تھا۔
جستہ جستہ میحیوں کا ظلم تشدد جو کہ رومی حکمرانوں کے دور میں واقع ہواتھا صرف اس وجہ سے عمل میں نہیں آیا تھا کہ مسیحی یسوع کی پرستش کرتے تھے رومی دُنیا کے اندر اور بُہت سے خدا موجود تھے مسیحیوں کے قتل کیے جانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ قیصرکی پرستش نہ کرتے ہوئے روم کے اتحاد میں داخل ہونے سے بھی انکار کرتے تھے ۔مسیحی یسوع کی بطور خُدا پر ستش کرتے تھے، وہ صرف اور صرف لاانتہا شخص خُدا کی ہی پرستش کرتے تھے۔ وہ کسی ملاوٹ کی اجازت نہیں دیتے تھے، دوسرے تمام تر خُداوں کو جھوٹے خُداوں کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
کوئی بھی ریاستی حکومت جیسے کہ رومی حکومت تھی کبھی بھی اُن کو برداشت نہیں کرتی تھی جِن کے پاس کوئی ایسا معیار موجود تھا جِس کے ذریعے سے ریاستی اعمال کافیصلہ کیا جاسکتا تھا لیکن مسیحیوں
کے پا س سچا اور عالمی پیمانہ موجود تھا جِس کی مدد سے کسی بشر کی اخلاقیات اور ریاست کے اعمال اور قوانین کافیصلہ کیا جاسکتا تھا۔ اس وجہ سے اُنہیں ریاست کے دُشمن خیال کیا جاتا تھا۔
کوئی بھی قوم ریاست یا حکومت ،جوکہ متواتر طور پر خُدا کے اخلاقی احکامات کو توڑتی ہے، بالا خر تاریخ کے اندر ہی تباہ کی جائے گی ۔جب بالاخر روم کی تھوڑ پھوڑ قیام میںآئی تو مسیحیت کو فروغ حاصل ہوا۔ ہلچل، متواتر جنگ بندی، اور جدید علم کو سےکھنے ذہنی عدم تسلسل کے دور میں مسیحیت نے یورپ کے شمالی قبیلوں کے اوپر مسیحیت کے فنی اظہار میں وسعت کے ذریعے سے شاندار تہذیبی وثقافتی اثرورسوخ چھوڑا، جوکہ فرونِ وسطٰی میں معاشی تعلیم تھی جِس نے ایمانداری کی خوبی کوفروغ بخشا تھا، جان لڑا کر کیا جانے والا کام تھا، کلیسیائی ہسپتالوں کااور خیراتی اداروں کا ایک متاثر کرنے ولا جال تھا، اور متاثرکُن فنی علم تھا ۔

تاریخ کی اصل فطرت کیا ہے ؟

تاریخ کی تشریح ہمیشہ یسوع مسیح کی حاکمیت کے مرکزی اُصول پر کی جانی چاہیے۔ تاریخ میںہم خُدا اور انسان کے مسیحی نظریے اور بُہت سارے دوسرے مدِ مقابل نطریات، فلسفوں، مذاہب اور سیاسی ڈھانچوں کے درمیان ایک جنگ دیکھتے ہیں۔ اس مقابلے کی نتیجتاً تصویر ہی تاریخ کی اصل فطرت ہے۔
بد قسمتی کیساتھ زیادہ تر لوگ پیدائشی طور پر اپنی بگڑی ہوئی اخلاقی سوچ کے باعث اِن بادشاہتوں کے تصادم کی نہ تو وضاحت کرسکتے ہیں نہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔
چلیں مسیحی نقطہ نظر سے تاریخ کو لیتے ہیں تو زیادہ تر مکمل طور پر جان بوجھ کر تاریخ سے بے خبر ہیں۔ وہ تاریخ کو بُہت عرصہ قبل ہائی سکول میں پڑھا ئے گئے ایک مضمون کی طرح لیتے ہیں، جِسے وہ بُہت دیر سے بھول چُکے ہیں بجائے اس کے کہ جو کچھ یہ مناسب طور پر تشریح کرنے پر ہے۔ اگر تاریخ کو مکمل طور پر سمجھا ہی جاتا ہے تو یہ عام طور پر مادہ پرست اور عقلیت پسند لحاظ سے ہے۔ تاریخ کے واقعات کو بیان ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ انسان کے پاس مقدس اور پیار کرنے والے خُدا کی تخلیق کی کوئی ابتداء نہیں ہے اور بے شک کوئی بھی متبادل تقدیر بھی نہیں ہے۔ بلاشبہ انسان کو اصل میں خُدا کی شبیہہ پر خلق کیا گیا تھا، اُسکے گُناہ کے ذریعے سے اُسکا پیدائشی حق چھینا جاچکا ہے۔ بھٹکے ہوئے انسان کو اپنے ماضی، مستقبل، اور حال کے جلال کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ صرف خُدا کا پاک روح ہی اِن چیزوں کو ہم پر ظاہر کرسکتا ہے جیسے خُدا کی حقیقت، تاریخ میں خُدا کے مقاصد، اور مستقبل کے لیے خُدا کے لوگوں کی تقدیر ہے۔ تاریخ کا مناسب جائزہ ہمیں صدیوں سے رائج خُدا کے نجات کے منصوبے کا جائزہ ہی عطا نہیں کرسکتا ہے، بلکہ تمام تر مدِ مقابل دُنیاوی نطریات کی حتمی شکست اور زمیں پر خُدا کے منصوبے کی فتح کی بصارت بھی عطا کرسکتا ہے۔
یہ ہمیں حتیکہ اس افراتفری کے دوران بھی ایک اعتماد اور مقدر کی سمجھ بوجھ عطا کرسکتا ہے۔ سربُلند ہونے اور برائی کے خلاف لڑنے میں ہماری حوصلہ افزائی ہوگی۔ ہماری نسل میں آنے والی جہالت بے گانگی اور ناکامی کو دیکھیے ہم میں ایک اُمید پیدا ہوگی ۔

تاریخ کی حقیقت کو مندرجہ بالانقاط میں سمجھا جا سکتا ہے :۔

1 ۔ تاریخ یسوع مسیح کے اختیار میں ہے۔ یہ تاریخ کے دُنیاوی، اور انسانی نظریات کو ظاہر کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ مسلکیت کے نظریے اور اُن غیر مہذب سازشی نطریات کو پیش کرتا ہے جو آج کل نہایت ہی مقبول ہیں۔ تاریخ بیان کردہ باپ کے جلال ،یسوع مسیح اور اُسکے صلیب پر مکمل کیے گئے کام کے اِردگرد گھومتی ہے۔
( کُلیسیوں 1باب16آیت )
2۔تاریخ صرف اور صرف پپر جلال یسوع کے اندر کر رہا ہے مسیحیوں کو اُسے سمجھنا ہے اور اسکے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ہے۔ ہم تاریخ کے اس جائزے کو عملی طریقے سے زندہ رکھ سکتے ہیں۔ بائبل تاریخ کے اندر کلیسیا کے مقصد کو ایک “بڑا فرمان “قرار دیتی ہے۔ ہر ایک قوم اور جذبے سے سرشار گروپ کے پاس یسوع اور اُسکی بادشاہی کی شہادت لے کر پہنچنے والی اس پُر جلال خیال والی پُرجوش مشنری سرگرمی کے اندر یسوع نے کلیسیا کو شرکت کی اجازت دے رکھی ہے۔
پاک روح سے معمور پر چار کی رُو سے خُدا کا علم بھاری تعداد میں پھیلے گا۔ بعض اوقات نتیجتاً ظُلم اور تشدد حاصل ہوگا، لیکن اس کابڑا فاءدہ یہ ہوگا کہ رُوحوں کی ایک بڑی تعداد نجات پایے گی۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ظاہر ی طور پر کلیسیاء کے اندر لائی جائے گی۔ یہ بیدار اور زندہ کلیسیاء پر نسل میں زنا کاری ،گُناہ اور اخلاقی بگار کامقابلہ کرنا جاری رکھےے گی جب تک کہ انسانیت میں ایک بڑا انقلاب برپا نہیں پوجا تا ہے۔
یہ بات ایک دِن دُنیا کی تمام قوموں پر عیاں ہوجائے گی کہ یسوع مسیح ہی خُدا وند ہے۔ وہ قوموں کے اوپر ایک بادشاہ کے طور پر حکومت کریے گا۔
ہم آج کل اِن تمام چیزوں پر مشتمل روحانی بیداری کو دیکھ رہے ہیں۔ مسیح یسوع نے روئے زمیں پر موجود تمام قوموں کو خُدا کی مکمل شہادت کی تعلیم دینے کا مکمل اختیار اور قوت کلیسیساء کے حوالے کر رکھی ہے۔
تاریخ بھی یقینااُسی طرح کوئی مطلب رکھتی ہے جیسا کہ ہماری بشری زندگی کوئی معنی رکھتی ہے۔ خُدا تاریخ کابالا خر ایک حتمی اختیتام کریے گا۔ پوری تاریخ کے اندر ہم دیکھتے ہیں شیطان اور شیطانی لشکر نے اُن پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی ہے جنہوں نے آزادی اور حقیقت کے لیے سر اُٹھایا ہے۔ شیطانی لشکر اور شیطان بعض اوقات بے شک جیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لیکن بازی ہمیشہ سے ہی خُدا وند کے نام ہی ہوتی ہے۔ بالاخر وقت اور تاریخ میں خدا کی ہی جیت ہوتی ہے۔ لوگ مرتے ہیں، نسلیں آتی جاتی ہیں، لیکن حقیقت جنگ ِ وجدل، قتل وغارت اور خون خرابے کی رُو سے فروغ پاتی جاتی ہے۔ حتیکہ تاریک ادوار کے اندر بھی، حقیقت ہمیشہ سے آگے کی طرف ہی سفر کرتی رہی ہے۔ انسانی نسل ایک دِن مسیحی معاشرے کو دکھے گی جوکہ ناتجرباتی طور پر شاندار اور پُر جلال ہوگا۔ یہی تاریخ کامقصد ہے۔

دُنیاوی نظریات کی جنگ

سب سے زیادہ طور پر پھیلنے والے غلط دُنیاوی نطریات کی اہم اِقسام مندرجہ ذیل ہیں جو کہ مسیحیت کیساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ بالاخر تمام تر دُنیاوی نظریات ،فلسفوں اور مذاہب کو اِن میں سے کسی بھی ایک سُرخی کے اندر رکھا جا سکتا ہے۔ مسیحیت، غیر مسیحی توحید، وحدانیت، نطریہ مادیت عدمیت، فلسفہ وجودیت، کثرت پرستی، وحدت الوجود کانظریہ، مشرقی باطنیت یانئے دور کافلسفہ۔

نظریہ علم انسانی
انسانی عقیدہ کے نظاموں کا مطالعہ ہے، انسانی عِلم کی نوعیت اور حدود کامطالعہ ہے، جوبھی ہم عقیدہ رکھتے ہیں ہم ایسے کیوں کرتے ہیں اس بات کاجائزہ ،اور یہ کہ آیا انسانی وجہ اور عِلم کی بدولت حقیقت کو حاصل کیا جاسکتا یے۔ “علم انسانی سے ذاتی واقفیت “حاصل کرنا، آپ کے عقیدہ کے نطام سے باخبر ہونا ہے :۔
آپ کے ایمان کی شرائط پر زیادہ مستقل مزاج ہونا ہے، اور اس چیز کو پہچاننا ہے کہ آُ پ کے عقائد اور نظریات میں کچھ نتائج موجود ہیں۔
ہرایک دُنیاوی نطریے کی شروعات کسی “روشن“حقیقت، قضیہ ،پیش قیاسی یا “ناقابلِ ثبوت حقیقتوں “
کی بنا پر ہوتی ہیں جو کہ سارے فلسفہ کو سہارا دیتی ہیں۔ ہر ایک مباحثے ،عقیدے یافلسفے کی بنیاد کسی قیاس آرائی پر ہوتی ہے، جِس کی بنیاد ہوسکتا ہے پہلے سے موجود کسی پیش قیاسی کے اُوپر ہو ۔بالاخر کوئی ایک یا چند ایک قیاس آرائیاں، ناقابلِ ثبوت قضیے، یا مفروضے ہوں، جو کہ بڑی حقیقت کے طور پر موجود ہوں جِس میں سے حقیقت کی وضاحت کی جاسکے اور اُسکو سمجھا جاسکے انسان ایک مخلوق ہے جِس کو جاننے کے لیے ایمان رکھنا چاہیے، اور جس سوچنے اور عمل کرنے کیلیے جاننا چاہیے کسی بھی چیز میں بغیر ثبوت کے ایمان رکھنے کے لیے علم ،سوچ اور عمل لازمی شرط ہونی چاہیے۔

دُنیاوی نقطہ نظر :۔ سوالات اور جوابات

مندرجہ ذیل قابلِ غور سوالات ہیں۔ اِن سولات سے بچا نہیں جاسکتا ہے۔ تاریخ کے شروع سے کیکر آج تک فلسفہ دان اور بپزرگان دین اِن سوالات کامقابلہ کرتے آئے ہیں۔ اُنہوں نے بُہت سارے جوابات تجویز کیے ہیں، لیکن تمام تر جوابات آگے کئی بڑی اقسام کاشکار ہوتے گئے ہیں۔ اِن سوالات کے لیے اس کے جوابات اس چیز کاجائزہ پیش کریں گے کہ آپ کِس قسم کے دُنیاوی نقطہ نظر کے قائل ہیں۔ اِن سوالات کے جوابات دینے سے آپ اپنے آپ کو دکھائیں گے کہ آپ ایک مسیحی ہیں، غیر مسیحی موحدہیں، وحدانی ہیں، ماہر ِ قدرت ہیں، عدمی ہیں، کثرت پرستی کے قائل ہیں، یا وحدت الوجود کے نظریے کے قائل ہیں، یاایک مشرقی باطنیت پسند ہیں، یا نئے دور کے قائل ہیں۔

سوالات :۔

1 پہلا سبب کیا ہے ؟ یعنی، کائنات میں موجود تمام چیزوں کے درمیان سب سے پہلے کون یاکیا موجود تھا ؟

2 حقیقت اوراُس دُنیا کی نوعیت کیا ہے جو ہم اپنےاردگرد دیکھتےہیں؟

3 انسان کیا ہے؟

4 پہلے سبب اور اُس دُنیا کیساتھ انسان کا رشتہ کیا ہے جو ہم اپنے اِرد گرد دیکھتے ہیں؟

5 انسان کی فطرت کیا ہے؟

6 ہمارے مرنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

7 کیا صیحح اور غلط کے درمیان کوئی فرق ہے؟

8 تاریخ کامطلب اور مقصد کیا ہے؟

جوابات :۔

یہاں پر میں نے کچھ ایسے جوابات پیش کیے ہیں جو مسیحی نقطہ نظر سے تعلق رکھتے ہیں۔

1ابتدا میں خُدا تھا۔ اُس نے بنا کسی چیز کے کائنات کو خلق کیا تھا۔

2 خُدا نے ایک ایسی کائنات خلق کی تھی جو ناقابلِ تبدل قدرتی قوانین کے ساتھ کام کرتی ہے۔

3 خُدا نے انسان کو اپنی ذاتی شبیہہ پر خلق کیا تھا۔

4 خُدا انسان کیساتھ اپنے کلام کے ذریعے سے رابطہ رکھتا ہے جو کہ غلطی سے پاک ہے۔

5 بے شک انسان کو خدا کی شبیہہ پر خلق کیا گیا تھا تو بھی وہ گُناہ میں گِر گیا تھا ۔اب خُدا مسیح یسوع کے کام کی بدولت چند خاص مردوں اور عورتوں کو رہائی بخش رہا ہے۔

6 موت کے موقع پر وہ جو یسوع مسیح کی بدولت رہائی پاچُکے ہیں ابدی زندگی یاآسمان میں داخل ہوجاتی ہیں۔

7 علم الاخلاق اخلاقی قوانین کا ایک ایسا نظام ہے جِس کی بنیاد خُدا کے کردار پر ہے جو کہ مقدس اور پیار کرنے والا ہے۔

8 تاریخ خطی طور پر آگے کی طرف بڑھتی ہے۔ خُدا نے حاکمانہ طور پر انسان کو خُدا کی حتمی تقدیر کی طرف لے جانے کے لیے بڑے بڑے واقعات کو تر تیب دے رکھا ہے۔

صرف امسیحیت ہی علم انسانی کا متواتر دُنیاوی جائزہ ہے۔ یعنی اس کی قیاس آرائیاں اُسکے نتائج کے مطابق متواتر ہیں۔ مسیحیت کے اندر ایک کامل فلسفہ موجود ہے جِس کے ذریعے سے انسانی زندگی کی ہر سطح کو سمجھا اور بیان کیا جاسکتا ہے۔
میں نے مندرجہ ذیل دُنیاوی نطریات کو خاص ترتیب میں ڈالا ہے کیوں کہ اس سے یہ ظاہر کرنا ممکن ہے کہ یہاں پر درج ہر ایک دُنیاوی نظریہ قدرتی طور پر پہلے سے موجودکو کامیاب بناتا ہے۔ جن ایک “ایماندار “علم انسانی سے ضمیری طور پر بُہت زیادہ لیس ہوجاتا ہے (یعنی وہ اپنے عقیدہ کے نظام کے ساتھ مستقل مزاج ہوجاتا ہے)۔ وہ اپنے جھوٹے دُنیاوی نظریے کے اندر ابدی تضادات کو دیکھتا ہے۔ جب وہ نتائج نکالتا ہے جواُسکے دُنیاوی نقطہ نظر کے قضیے غلط نظر کی حمایت کرتے ہوں، تو وہ اُنہیں ایک دوسرے دُنیاوی نقطہ نظر کی حمایت کرتے ہوئے ترک کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اُس دوسرے نطریے کے لیے جِس کی بنیاد اِن نئے نتائج پر ہو۔ وہ تب تک اُس عقیدے کاقائل رہے گا جب تک وہ وہی فِطری بے ربطیاں نہیں دیکھ لیتا ہے۔ اور مزید اسی طرح ہی نتیجہ ہمیشہ سے نئی انقلابی فِکر کی حالت میں نکلتا ہے، ایک فلسفے کو کسی دوسرے کے لیے تبدیل کرنا جب بھی کوئی شہادت موجود ہ نمونے کی مخالفت کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ایک دُنیاوی عقلمند فلسفہ دان کی حتمی حالت ہر چیز پر تھوڑا بپتہ یقین کرنا ہوتا ہے۔ بالاخر وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا کہ عقیدہ کاتسلسل ناممکن ہے یا وہ فضول اور رائیگاں سوچ پر پچھتائے گا اور حلیمی اور فروتنی کیساتھ مکمل طور پر مسیحی نقطہ نطر کو گلے لگا لیتا ہے۔

مسیحیت کے مدِ مقابل دُنیاوی نطریات صرف بے ربطی پیش کرتے ہیں۔ میں یہاں پر ہر ایک مدِ مقابل دُنیاوی نطریے یافلسفے کی تعریف بیان کروں گا ہر ایک کی قیاس آرائیوں کو درج کروں گا اور مختصر طور پر وضاحت کروں گا کیوں ہر ایک اپنے ہی موقف کے ساتھ بے ربط ہے۔

توحید :۔ مسیحیت کے علاوہ، یہودیت اور اسلام دُنیا کے دوسرے دو توحیدی مذاہب ہیں ،جوکہ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ خُدا ایک ہے۔ یہودیت اور اسلام مسیحیت سے اس تعلیم کی رُو سے فرق ہیں کہ یسوع مسیح ایک بُہت بڑا نبی یا مبلغ تھا، لیکن خُدا کابیٹا نہیں تھا۔ دونوں یہودی اور مسلمان تثلیث کی تعلیم کو سختی سے رد کرتے ہیں۔ یہودی اور مسلمان پُرانے عہد نامے کو نزولی خُدا کے کلام کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ مسلمان نئے عہد نامے کو بھی اور قرآن (رسول محمد کی تحریریں) کو خُدا کے نزول کے طور پر قبول کرتے ہیں ۔مسیحی ،یہودی ،اور اسلامی نطریات، خدا کے حوالے سے، دُنیا کی تخلیق، انسان، انسان کے بھٹکنے، عقیدے اور تاریخ کے حوالے سے بُہت حد تک ملتے جپلتے ہیں۔ سب سے بڑی بے ربطی یہ ہے کہ انسان یسوع مسیح کے بارے میں کیا سوچاجائے۔ یہودیوں کے لیے صلیب پر اُسکی موت ایک لڑکھڑا دینے والا تماشہ ہے۔ وقت اور وعدہ کے ممسوح کی پیدائش کی جگہ، اور اُسکی زندگی کے بُہت سے واقعات، اور طریقہ کار اور اُسکی موت کے حالات یہودیوں کے ذاتی پُرانے عہد نامے کی انجیل کی رُو سے پہلے ہی سے بیان کیے جاچُکے تھے۔ مثال کے طور پر، تفصیلی نقشہ زبور نمبر22 یسعیاہ53باب کے اندر ملتا ہے، اور دانی ایل 9باب، خاص طور پر، بائبل کے نوشتوں کو پورا کرنے والے تاریخ میں واحد شخص، ممسوح یسوع مسیح کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہودی اُسے پہچانتے نہیں ہیں، بے شک اُس نے بعد میں اِن نوشتوں کو پورا کردکھا یا تھا۔ مسلمانون کے لیے یسوع مسیح صرف ایک حیران کپن شخصیت ہے۔ اسلام کے مطابق “فقط ایک انسان “کی طرف سے ایک اسطرح کادعویٰ آنا ایک بے حرمتی ہونی چاہیے اسکے باوجود مسلمان اس بے ربطی کو نظر انداز کرتے ہیں۔

وحدانیت:۔ یہ محض خُدا میں ایک عقیدہ ہے۔ یا کسی قسم کے ایک سب سے بڑے وجود میں ایمان رکھنا ہے۔ ایک موحد یہ ایمان نہیں رکھتا ہے کہ یسوع مسیح خُدا ہے اور بائبل کو خُدا کے کلام کے طور پر قبول نہیں کرتا ہے۔ ایک سمجھ دار ذہن کے لیے حقیقت نمایاں اور قابلِ ادراک ہے۔ نشاۃ الثانیہ کے دور میں کپچھ مذہبی فلسفہ دان، جیسا کہ Rene Descartes ہے، وہ یونانی فلسفے کادُنیاوی نقطہ نظر مکمل طور پر ختم کردینا چاہتے تھے۔ جوکہ قیاس آرائیوں پر مبنی تھی جوکہ ناقابل، ثبوت تھیں۔ Descartes نے اُنیا کی ایک ہمہ گیر تصویر پیش کی تھی، جِس کی بنیاد انسانی وجوہات اور حسابی ثبوتوں پر تھی۔

توحید ایک “باقاعدہ کائنات “کو ترجیح دیتی ہے جو کہ ابتدائی طور پر خُدا نے یا ایک عطیم وجود کی تخلیق ہے، لیکن کائنات کے قدرتی قوانین کے مطابق اپنی مدد آپ کے تحت رہ گئی ہے۔ حقیقت کو قدرتی نزول کے وجود، قدرتی قانون اور “ضرورت کی وجہ “ کی بدولت سمجھا جاتا ہے۔ طرزِ فکر کے دور کے پرٹیسٹنٹ جِن کے اندرJohn Locke اور David Hume بھی شامل ہیں اُنہوں نے خدا کو پہچانا تھا اور خُدا کی قدرت ظاہر ہوئی تھی۔
وہ ایمان رکھتے تھے کہ خُدا کے کردار کو دونوں قدرتی قانون اور بائبل کے قانون کی رپو سے سمجھا جاسکتا ہے۔
Locke اور Hume نے تکرار کیا تھا کہ چو نکہ انسان کو خُدا کی شبیہہ پر خلق کیا گیا تھا، ا،س لیے انسان بائبل کی حقیقت کو انسانی وجہ کی بنا پر حاصل کرنے کے قابل ہوا تھا۔ توحید نے اُس تکرار کو اور وسعت دی اور یہ کہا کہ قدرتی نزول صرف ایک پیمانہ تھا اور مکمل طور پر بائبل کی ضرورت سے انکار کردیا ۔ضرورت کی وجہ نے لیاقت کی وجہ کو راستہ عطا کیا ۔توحید پھر ایک بڑا لفظ بن گیا جو کہ روشنی کے دور کے فلاسفروں کے گروپ کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یعنی Locke اور Hume سے لیکر جوکہ مسیحی ایمان کے مرکزی خمیوں میں روایت پسند تھے۔ Francois Voltaire اور Thomas Paineتک، جوکہ کھُلے عام مسیحیت کے دُشمن تھے۔
ایک موحد کے لیے خُدا ہی اعلی وبرتر پہلا سبب ہے جِس نے کائنات کو خلق کیا تھا، لیکن اس باترتیب دُنیا کو اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ خُدا پیدائشی یا شخصی نہیں ہے۔ خُدا انسانی نسل پر دور اندیش یا حکمران نہین ہے۔ دُنیا کے اندر تمام تر واقعات کسی وجہ اور سبب کے باعث عمل میں آتے ہیں، اور وہ پہلے ہی سے خُدا کی جانب سے طے شُدہ نہیں ہیں۔ کوئی معجزات نہیں ہوتے ہیں۔ تمام تر تاریخی واقعات کام کے اوپر قدرتی قوانین کاایک نتیجہ ہیں ۔انسان بے شک خُدا کی مکلوقات ہیں، مگر وہ آزادانہ مرضی کیساتھ عقلمند کارندے ہیں۔ انسان کو بذاتِ کود اس “باضابطہ “کائنات کے اندر ایک غیر اہم آدمی کے طور پر کام کرنا چاہیے وہ خُدا کیساتھ کوئی رشتہ نہین رکھ سکتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر اچھا ہے، ابتدائی طور پر بُرا نہیں ہے۔
دُنیا بھٹکی ہوئی یا کم عقل نہیں ہے، یہ خُدا کی قدرت اور کردار کی ایک کامِل تصویر ہے۔
مسٰیحیت کے دُنیاوی نقطہ نظر کی رُو سے یہ ایک نہایت ہی اہم عمل ہے۔ ایک موحد یہ ایمان رکھتا ہے کہ ایک کامل خُدا کے بارے میں عِلم قدرت میں سے اخذ کیا جاسکتا ہے قدرت جو کہ ایک کامل چیز ہی ہے۔ چونکہ مادی دُنیا کامل ہے، اس لیے دینیات، قانون اور اخلاقیات قدرت کے اندر دیکھے جاسکتے ہیں۔ مسیحیت قدرتی نزول کو بائبل کی شریعت میں ایک اضافہ کے طور پر قابل اعتبار نہیں سمجھتی ہے۔ لیکن چونکہ دُنیا بھٹکی ہوئی اور ناکامل ہے، خُدا نے لکھے ہوئے خدا کے کلام کی شکل میں حقیقت کاایک خاص نزول انسان کو عطا کیا ہے۔ واحدانیت خدا کی طرف سے نزول کو زیادہ قابلِ اعتبار نہیں سمجھتی ہے اور صرف اور صرف قدرت کی لیاقت اور انسانی وجہ پر انحصا ر کرتی ہے۔ آئندہ زندگی اگر یہ بالکل بھی کوئی وجود رکھتی ہے تو یہ مکمل طورپر قدرتی دُنیا سے الگ ہے۔ قدرتی قوانین کے ذریعے سے ہمیں اس زندگی کے اندر انعام اور سزا مل جاتی ہے۔ موحد شاید کہ آئندہ کی زندگی میں آسمان میں ایک انعام کے طور پر ایمان رکھتا ہو۔ چونکہ کوئی بھی انسان مکمل طور پر بُرا نہیں ہے۔ اسلیے ابھی واحدانیت والے ابدی زندگی کے وجود پر شک کرتے ہیں۔ تاریخ کاجائزہ اور پیمائش قدرتی اسباب کے باعث ہوتا ہے، جِس میں خُدا کبھی بھی مافوق الفطرت طور پر دخل اندازی نہیں دیتا ہے۔

نطر یہ مادیت :۔
وحدانیت کی بڑی بے ربطی یہ ہے کہ یہ کائنات کو خُدا کی طرف سے ایک خلق کی گئی ایک ترتیب اور وجہ خیال کرتے ہوئے مسیحیوں کے ایمان کے عقیدے کیساتھ اتفاق کرتی ہے۔ وحدانیت یہ تسلیم کرتی ہے کہ انسان کو ابتدائی طور پر خُدا نے خلق کیا ہے، لیکن انسان کیساتھ، اسطرح کا سلوک کیا جاتا ہے جیسے کہ وہ اس کائنات کی ایک پیداوار ہے۔ اگر انسان ایک شخصی وجود کا مالک ہے تو پھر کیا خدا بھی قدرت کے اندر شخصی نہیں ہونا چاہیے؟ اگر انسان کو خُدا کی شبیہہ پر خلق کیا گیا ہے، تو پھر کیا بالاخر انسان کو خُدا کی شریعت کے سامنے جواب دہ ہونے کی بجائے قدرتی قانون کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا چاہیے؟ نطریہ مادیت خُدا کو اس تصویر میں سے غائب کرتے ہوئے اس مسلے کو حل کردیتا ہے۔ وحدانیت کو اس طرح سے نطریہ مادیت اور خُدا پر ایمان رکھنے کے نطریے کے درمیان ایک پُل کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔
نظریہ مادیت کے مطابق، انسان قدرت کی ایک پیداوار ہے۔ وہ نچلے درجے کے جانداروں میں سے تدریجی مراحلے میں سے گُذرنے کے بعد وجود میں آیا ہے، کائنات کود یاتو پہلے سے موجود تھی یا اپنی مدد آپ کے تحت وجود میں آئی ہے ابتدا اور ارتقاء بااُصول قدرتی قوانین کی رُو سے قابلِ وجاحت ہونی چاہیے۔ انسانیت ،جدید اِصطلاح،جبریت، ساءنسیات ، نطریہ ڈراون،مارکسیت اور فراءڈیت اِن میں سے پر ایک نطریہ مادیت کے اندر ایک ردوبدل ہے۔
انسانیت یہ عقیدہ ہے کہ کائنات کے اندر انسان ہی سب سے بڑا وجود ہے۔ جدید اصطلاح ایک نطریہ ہے کہ انسان قدرتی طرز،عمل میں انسانی ترقی کیساتھ کسی بھی مسلے کو حل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ جبرت ایک فلسفہ ہے کہ تمام واقعات وابستہ یکدگر ہیں ،اور اِن کی پیمائش صرف وجہ اور سبب کی بدولت ہی نہیں ہوسکتی ہے، بلکہ حقیقت کے علم کو صرف اُسی وقت ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ جب پوری کائنات کو اس طرزِ عمل سے دیکھا جاتا ہے۔ سانسیات ایک عقیدہ ہے قابلِ ہیماءش قدرتی قوانین جن کی بنیاد سبب اور وجہ پر ہے مادی کائنات میں موجود تمام تر دُنیاوی واقعات کی پیمائش کرتے ہیں۔ سانسیات یہ عقیدہ بھی ہے کہ اختیاری اسباب کو جاننے پہچانے تجربات اور مشاہدات اور میعاری تبدل پذیر کے ذریعے سے ماپا جاسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، وجہ اور سبب کے تمام تر واقعات کے سلسلے نئے سِرے سے پیدا ہوسکتے ہیں، نئے سِرے کی پیدائش ہمیشہ سے چند کاص نتائج اور اعمال کی پیروی کرتے ہوئے واقع ہوتی ہے۔

ڈراون کا نظریہ جانے پہچانے قوانین کو مکمل عضوی ارتقاء کی تھیوری کی شکل عطا کرتا ہے، کہ اِنسان تدریجی مراحل سے گُذر کر نچلے درجے کے جانوروں سے نکلاہے، جوکہ آگے یک خلوی جاندار سے تدریجناً وجود میں آئے ہیں۔ ڈارون کانظریہ بالاخر یہ تجویز پیش کرتا ہے کہ یہ پیچیدہ کائنات ارتقائی طور پر کسی پہلے سے موجود شے میں سے نکلتی ہے یایہ کسی بھی چیز میں سے وجود میں نہیں آئی ہے۔ مارکسیت معاشرے کے ارتقائی اور جبریت کے نظریے کو پیش کرتی ہے، انسان کے ارتقائی طور پر مذہب اور ذاتی ملکیت کیساتھ پوٹو پیا کی اشتراکیت میں تقسیم ہوتے ہوئے۔ تمام تر معاشرتی تاریخ پر مالی گروہ بندی کے درمیان تکلیف کے طور پر نظرکی جاتی ہے، انسانی تاریخ کو ایک فہم سی قوت میں سے اخذ کیا گیا ہے جو کہ معاشرے کو ایک پوری دُنیا کی اشتراکیت کی طر ف لے جاتی ہے۔ فراءڈیت انسانی نفسیات کو پیش کرتی ہے جِس کی بنیاد ارتقاء اور جبریت پر ہے۔Freud قیاس کرتا تھا کہ چونکہ انسان نچلے درجے کے جانوروں کے ملاپ کی پیداوار ہے ، اس لیے تمام انسانیذاہانت جِنسی قوت کی ایک ترفع ہے۔ تمام تر انسانی جدوجہد کے پیچھے جنسی ملاپ ہی ایک عامل قوت ہے چونکہ سپیشیرز کی نئی پیدائش ہی ہمیشہ سے جبری ارتقاء کی منزل رہی ہے ۔

تمام تر قدرتی فلسفے اِن عقیدوں کے اوپر انحصار کرتے ہیں ۔صرف مادہ ہی وجود رکھتا ہے ۔قدرت وجود رکھتی ہے ۔خُدا کاکوئی وجود نہیں ہے ۔کائنات کی بنیاد صرف اور صرف وجہ اور سبب پر ہے ۔ کائنات ایک ترتیب شدہ واقعہ ہے ۔بے شک یہ کسی اعلٰی ذہنیت کی تخلیق نہیں تھا ۔ انسان قدرت کی پیداوار ہیں ۔ بے با ضمیر وجود کے حامل انسان جسمانی اور کیمیاءی خصوصیات کی پیچیدہ اشتراکیت کو مکمل طور پر سمجھنے کی قابلیت نہین رکھتے ہیں اُن چیزون کو جو کہ کائنات کوبناتی ہین ۔تمامتر انسانی عِلم کی بنیاد جبریت پر ہی ہے ۔ موت ہی حتمی چیز ہے ۔ اس کے بعد کوئی آئندہ کی زندگی نہیں ہے ۔تاریخ بناکسی حتمی مقصد اور بنا کسی مقدس منزل کے ایک وجہ اور سبب کاسلسلہ ہے ۔ اخلاقیات انسانی خیالات کی جبریت کی ایک دریافت ہے ۔

مادیت کے اندر سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ انسان ایک عقلیت پسند چیز ہے ،جوکہ خُدا سے ہتکر قدرتی قوتوں کی جانب سے خلق کیا جانے والا سب سے بڑا جانور ہے ، اسکے باوجود انسان کو اپنی ہی قسمت کے اوپر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ اگر انسان کی پیمائش کائنات کی قدرتی قوتوں کیبدولت کی جاتی تو پھر انسان کے مادیت کے فلسفے کاجائزہ بھی اُنہیں قوتون کی بدولت ہی جانا تھا ۔
اگر انسان محض ایک سوچنے والی مشین ہے ،تو پھر انسان یہ کسی طرح سے جان سکتا ہے کہ اُسکے خیالات درست ہیں ؟ وہ فرضی قیاس آرءیان کہ انسان کاکائناتی نقطہ نظر کسی چتان کی ضمیر ی سمجھ بوجھ سے بڑھکر ہے کچھ زیادہ اہمیت کاحامل ہے جوکہ مادیت کی ایک بُہت بڑی کامی ہے ،کائنات کی ترتیب اور نقشہ ہوسکتا ہے کہ محض ہمارے ذہن کی ضمیری حالت کا ایک عکس ہے ، جوکہ مادی عوامل اور کیمیاءی جوابی عوامل سے کچھ بڑھکر نہیں ہے ۔جبریت پسند فلاسفروں نے بالاخر ا،س تضاڈ کو دیکھا اور یہ ثابت کرنے کی ایک ناکامیاب کوشش کی کہ انسان کچھ بھی یقینی طور پر نہیں جان سکتا ہے ۔
چارلِس ڈارون نے اس مسلے کو اُس وقت پہچانا تھا جب اُس نے اپنی آپ بیتی کے اندر لکھا تھا ۔“ایک خوفناک شک ہمیشہ سے برپا ہوتا ہے آیا کہ انسان کے ذہن کو ایک حتمی راےء سمجھا جائے ،جوکہ ایک نچلے درجے کے جانور کے ذہن سے وجود میں آیا ہے ،کیا اُسکی کوئی قدر وقیمت ہے یا کیا وہ بالکل بھی قابلِ بھروسہ ہے ۔ کیا کوئی بندر کے ذہن کی حتمی راےء پر بھروسہ کرے گا اگر ایسے ذہن کے اندر کوئی ایسا عقیدہ موجود ہے ؟”

عدمیت ؔ :۔
اگر انسان کی قوت مشاہدہ اُسکے اپنے ذاتی ذہن کی موہون ِ منت ہے ،تو کیا یہ محض اسطرح سے ہی نہیں ہے کہ حقیقت بذات، خود محض ایک غلط فہمی ہے ؟ اگر انسان کاعقلیت پسند ذہن محض ایک احساس اور غلط فہمی سے بڑھکر کچھ نہیں ہے ،تو پھر فقط کچھ اس طرح سے ہے کہ حقیقت کی غلط فہمی کے سواےء کسی بھی چیز کاکوئی وجود نہیں ہے ۔ عدمیت کسی بھی چیز پر ایمان نہ رکھنے والا ایک عقیدہ ہے ، تو کیا یہ محض بالکل ایک فلسفہ نہیں ہے بلکہ اس سے بھی بڑھکر مایوسی کا ایک احساس ہے ۔ ایک باطنیت پسند یہ دعویٰ کرتا ہے کہ “کچھ جاننا “ نجات ہے ؛ ایک لدادری یہ دعویٰ کرتا ہے کہ “کچھ بھی جاننا “ممکن نہیں ہے اور نجات بے معنی ہے ۔عدمیت ایک دُنیاوی نقطہ نظر ہےجو کہ ہر ایک چیز کو موقع کی مناسبت پر چھوڑتا ہے ۔کسی بھی چیز کو حقیقت میں جاننے یا کسی بھی چیز کو “اعلٰی درجے “تک ہمیں غلط اور درست کاہیمانہ سکھانے کاکوئی امکان موجود نہیں ہے ،
بیسویں صدی کی دوسری جنگِ عظیم کے بعد ،یورپ والوں نے یہ پہچانا کہ عقلیت پسند قدرتی ساءنس اکثروبیشتر وجودیت کے مساءل کویکجا کرتی ہے ۔ساءنس نے تمام تر جوابات مہیا نہیں کیے ہیں ۔Stalinنے پھر اسکو مارکسیت کے اندر ایک موزوں معاشرتی فلسفے کے طور پر ایمان رکھنے کو اور بھی مُشکل بنا دیا ۔
جب فنکاروں نے عقلیت کو مشکل دیکھا تو اُنہوں نے ایک فنی حالت کے طور پر ،جدید دُنیا کے خرافات کے ایک عکس کے طور پر مافوق الحقیقت کوجنم دیا ۔انسانیت نے صرف اور صرف مایوسی اور پریشانی ہی مہیا کی۔ مایوسی انسانی حالات کا ایک حِصہ معلوم ہوتی تھی ۔
عدمیت فلسفے کی عدم موجدگی ۔ایک عدمی کے لیے خُدا مُردہ ہی ہے ۔حقیقت کے اُسکے لیے کوئی معنی نہیں ہیں ۔کوئی بھی فلسفہ کسی کام کانہیں ہے ۔ عِلم ،خلاقیات ،تاریخ ،خوبصورتی ،حقیقت ،زندگی اور موت کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔ایک کالص عقلیت پاندی کے نظام کے اندر اس طرھ کاکوئی ابدی مقصد یاپاک منزل نہیں ہے ۔ ایک مادہ پرست عدمیت کارُخ کرلیتا ہے جب وہ یہ پہچان لیتا ہے کہ عقلیت پسندی انسان کو اُس کے اپنے ذاتی خیالات پر ایمان لانے کی کوئی وجہ فراہم نہیں کرتی ہے ۔Thus Spake Zarathustraکے اندر
Friedrich Nietzsche نے یہ ارتقائی نقطہ نظر پیش کیا ہے :۔ بندر کا انسان کیساتھ کیا رشتہ ہے ؟ایک ہنسی مذاق یا شرمندگی کاخاکہ ہے ۔ انسان بالکل سُپر میں کی طرح ہی معلوم ہوگا “۔
عدمیت اُن نتائج زیادہ کچھ نہیں ہے جوکہ مادیت نے پیشکیے تھے ،ایک ماہر قدرت جو کہ یہ قیاس کرتا ہے عِلم وجوہات ممکن ہیں بالاخر اُسکے پا س اس کو ثابت کرنے کاکوئی طریقہ موجود نہیں ہے ۔کم از کم وہ اتنی بھی وضاحت نہیں کر سکتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی خیلات اور وجوہات کے بارے میں فِکر مند کیوں ہے وہ “کچھ بھی نہ وہےء “ کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے ۔ ایک مستقل مزاج ماہر قدرت ا،س بات کو تسلیم کرنے پر بھی مجبور ہے کہ اخلاقیات ،اخلاقی اعمال سے پیدا ہونے والے نتائج کے ایک نطام کے طور پر موجود ہے ۔البتہ اگر خُدا کاکوئی وجود نہیں ہے تو پھر انسان کبھی بھی “بُلند پایہ اخلاقی قانون “کی خلاف ورزی کرہی نہیں سکتا ہے وہ صرف “خطاکاری کے احساسات “کے ساتھ رہ گیا ہے ۔ لیکن خطاواری کسی کام آتی ہے ؟ انسان کو خطاکاری کے اُن احساسات سے اگر ممکن ہو تو انکار کرنا چاہیے ۔اُسکے باوجود اخلاقی طور پر کچھ غلط کر گُذرنے کےاحساسات لوگوں کے اندر ہر جگہ پاےء جاتے ہیں ۔
جیسا کہ Henry David Thoreau نے Waldenکے اندر لکھا ہے “تمام انسان بالکل مایوسی کی زندگیان بسر کرتے ہیں”۔
خُدا کے علاوہ گُناہوں سے کفارے کی معافی کاکائنات کے اندر کوئی وجود نہیں ہے ۔خطاکاری کے یہ احساسات صرف اور صرف عدمیت کی مایوسی کی طرف لے جاسکتے ہیں ۔
ایک عدمی اُس شخص کی مانند ہے جو کہ رات کے وقت پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جاتا ہے اور اس روشن کائنات کوٹکتکی باندھکر دیکھتا ہے ۔ جب وہ اُس سب سے قوت سے سوال کرتا ہے جِس کاکوئی وجود نہیں ہے ،
“زندگی کاکیا مطلب ہے ؟“تو بالکل کوئی جواب نہیں ہے ۔ انسان بنیادی طور پر یہ احساس رکھتا ہے کہ اُسکا کوئی مقصد اور منزل ہونی چاہیے ،مگر عدمیت کوئی جواب پیش نہین کرتی ہے ماسواےء حتمی انہدام کے پس انسان بنیادی طور پر ایک اخلاقی پیداوار ہے مطلب کی کمی نااُمیدی یاعدمیت کی اوڑھ لے جاتی ہے ۔
بلا شبہ عدمیت ایک مستقل فلسفہ کے طور پر ناممکن ہے ۔ بے معنی میں سے کچھ بھی منطقی نہیں ہوسکتا ہے یا پھر دوسری جانب سارا کچھ ہی منطقی ہوسکتا ہے ۔عدمیت کچھ بھی نہ ہونے میں ایمان رکھنا ہے ۔ اسکے باوجود اس بات کی توثیق کرنے کے لیے کہ “کسی بھی چیز کاکوئی وجود نہیں ہے “ہر ایک چیز میں اُس عقیدے کی توثیق کرنا ہے جِس کو جانا جاسکتا ہے ۔ایک ایک بے دین جو کسی بھی خدا میں نہیں رکھتا ہے ، سب سے پہلے خُدا کے تصور کی توثیق کرتا ہے اور پھر اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ یقینی طور پر یہ جاننے کے لیے کہ خُدا کاکوئی وجود نہیں اُسے اُس ہر چیز سے واقفیت حاصل کرنی ہے جو کہ اُس کے عِلم سے باہر ہے ۔لیکن ایک محدود ذہن کے لیے سارا کچھ جاننا ناممکن ہے ۔اسطرح سے عدمیت کبھی بھی ایک عقیدہ نہین ہوسکتا ہے ۔اس طرح سے عدمیت کبھی بھی ایک عقیدہ نہیں ہوسکتا ہے لیکن صرف اور صرف بے معنی مایوسی کے جذبات ہوسکتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ انسان اِن نفسیاتی او رجذباتی بے ربطیوں کے اندر جکڑا ہوا ہے جو کہ خود بخود ہی مطلب ، قدروقیمت ،کوبصورتی ،بھلائی ،قسمت اور مقصد کو تلاش کرنے کا ایک طرزِ عمل ہے ۔ ایک سب سے بہترین عدمیت صرف اس چیز کی توثیق کرسکتی ہے کہ کچھ گہرے سوالات موجود ہیں جو کہ انسان کے دِل اور دماغ کو چنوتی دیتے ہیں لیکن اُن کے کوئی بھی آسان جوابات موجود نہیںہیں ۔

فلسفہ ؔ وجودیت :۔
یہ نطریہ کہ کوئی بھی مکمل حقیقت موجود نہیں ہے کہ تمام حُسن عمل میں ایک تعلق پایا جاتا ہے جو کہ بیسویں صدی کے اندر ایک ظاہری فلسفہ بن چکا ہے ۔“کوئی اخلاقی حقیقت موجود نہیں ہے صرف اخلاقی تشریحات موجود ہیں “۔اپنی ذاتی مرضی کے مطابق کام کیجیے “۔حقیقت وہی ہے جِس کسی بھی چیز کے اندر آپ ایمان رکھتے ہیں “۔ جو کچھ اچھا لگتا ہے اُسے کیجیے ،بشرطیکہ اُس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے “۔ زندگی وہی کچھ ہے جو کچھ آپ اس کابناتے ہیں ۔ ہر ایک چیز موضوعی ہے ۔ یہ مشہور ومعروف بیانات فلسفہ وجودیت کامحض ایک اظہار ہیں ۔
جب کوئی معروضی حقیقت کاانکار کرتا ہے ، تو انسانی وجود کامسلہ شدت اختیار کرتا ہے ۔Rene Descartes نے یہ ظاہر کیا تھا کہ فاعل “میں “کود آگاہی ہے ، جب اُس نے یہ مفروضہ پیش کیا تھا “میرے خیال میں اسی لیے ہی میں ہوں “۔لیکن ہمارے اندر اور بغیر ہر ایک چیز ،ہمارے جذبات ،قوت مشاہدہ اور خیالات ، مشکوک ہوسکتے ہیں ۔ا،سکے باوجود ہم اِن جذبات ،قوت ِ مشاہدہ اور خیالات کیساتھ جُڑے ہوئے ہیں ۔اسلیے اُس ظاہری حقیقت کی تصدیق کرنا ناممکن عدمیت کے نظریے کو قبول کرنے سے کہیں آسان کام ہے ۔فلسفہ وجودیت میں کم ازکم کسی نطام کے تحت بڑے بڑے فلسفانہ سوالوں کے جوابات عطا کیے جاسسکتے ہیں۔
فلسفہ وجودیت توثیق کرتا ہے کہ مادی کائنات ایک وجود رکھتی ہے ؛ مگر خُدا کاوجود نہیں ہے ۔ کائنات اسباب اور اثرات کی منطقی ترتیب کیساتھ قائم ہے ۔ انسانی عِلم معروضی اور موضوعی سمجھ بوجھ میں منقسم ہے ۔ انسان کاایک وجود ہے ۔لیکن انسان کاوجود ہی اُسکا نچوڑ ہے ۔ دوسرے لفطوں میں ،ہم سب اپنے اپنے ذہنوں میں اس چیز کی تعریف کرتے ہیں کہ ہم کون ہیں ۔
ہر ایک شخص اپنی ذاتی قسمت اور اصلیت کو پرکھتا ہے ۔ معروضی ظاہری دُنیا حقیقی ہے ۔البتہ انسان ،اکثروبیشتر دُنیا کابے معنی اور غیر منطقی طور پر مشاہدہ کرتا ہے ۔ انسان کا ظاہری دُنیا کا مشاہدہ کرنا ایک حقیقت ہے ۔انسان معروضی دُنیا کی بے معنی چیزوں کا مقابلہ کرتا ہے موضوعی قدروں اور مطلب کوتخلیق کرتا ہے ۔یہ ذاتی احتیاط ظاہری واقعات کو اُسی طرح سے دیکھتا ہے جیسے کہ وہ ساتھ جُڑے ہوئے یں ؛ انسان اپنے ہی ذہن میں اثرات اور اسباب خلق کرتا رہتا ہے جہاں پر یہ حقیقت میں موجود نہیں ہیں ۔ تاریخ کے اوپر ایک سیدھے خط کی طرح نظر کی جاتی ہے ،لیکن یہ کسی بھی سِرے یا مقصد تک نہیں پہنچتی ہے ۔ اخلاقیات ایک محتاط ذہن کی ایجاد ہے ۔
ایک فلسفہ وجودیت کاحامی پہچانتا ہے کہ دُنیا بھٹکی ہوئی اور پاگل ہے اور انسان بھی بھٹکا ہوا اور پاگل ہے ۔ اس لیے جب کبھی بھی انسان دُنیا میں سے انتشار کی حالت میں کوئی مطلب تخلیق کرتا ہے تو اُسکا ذہن غیر
منظم اور محتاط بن جاتا ہے ۔
لیکن محتاط ذہن جو حقیقت کاعکس پیدا کرتا ہے اُس کااصل میں کوئی وجود ہونا چاہیے ۔جو کہ فلسفہ وجودیت کو اور مزید مساءل کی اوڑھ لے جاتا ہے ۔ایک فلسفہ وجودیت کا حامی ایک ناگذیر دماغی خلل ،پریشانی ،خوف اور حتیکہ کراہت کامقابلہ کرتا ہے ،جب وہ یہ پہچانتا ہے کہ مطلب تخلیق کرنے کی ذمہ داری اور ذہنی عقل مندی کااحساس اور نجات ذہن کے اندر ہی موجد ہے جو کہ شروع ہی سے ایک محتاط ھالت ہے ۔ ایک فلسفہ وجودیت کاحامی کبھی بھی یہ وثوق کے ساتھ نہیں جانتا ہے کہ کون سی حقیقت ایک اصل حقیقت ہے ۔

اس بات پر گور کرنا اہمیت کاھامل ہے کہ جدید فلاسفرز جنہوں نے اپنے ذاتی جمیر کی رپو سے فلسفہ وجودیت اپنانے کی کوشش کی ہے بالاخر ایک ایسا نطام تلا ش کرنے کی کوشش میں ناکام رہے ہیں جوکہ خُدا سے ہٹکر انسانی وجود کی وضاحت کرتا ہو ۔ بعض نے آخر کار “مسیحیوں “کے وجودکاانتخاب کیا ، جوکہ معروضی اور موضوعی وجود کے تصور مسیحیوں کے عقیدے کی فرضی قیاس آرائیوں پر مستمل ہے ۔
دوسروں نے یا تو کود کشی کرلی تھی ،یا دیوانے بن گےء یا خطا اور مایوسی کے ساتھ بھرے ہوئے ضمیر کیساتھ زندگی بسر کرتے رہے ہیں ۔مضبوطی کیساتھ جتنا زیادہ انسان خدا کے وجود سے انکار کرنے کی کوشش کرتا ہے ،اتنا ہی زیادہ خُدا اور مذہب کانظریہ اسکے ذہن پر مسلط ہوتا ہے ۔ وہ شاید کہ لفظی طور پر خُدا کاانکار کرتاہے لیکن وہ متنفر ضمیر کے اندر مسلسل خُدا پر اپنی تحریر کو ہلا رہا ہے ۔
جدید عقلیت پسندوں کاجان بوجھ کر مرنا اور مادہ پرستوں کے فلسفے ہمیں جدیدیت کے نظریے کی طرف لے گےء ہیں ۔یہ ایک “جھوٹے فلسفے “کادُنیاوی نطریہ ہے ۔جدیدیت یہ نتیجہ بیان کرتی ہے ؛ ہم دوبارہ سے شروع کیے بغیر مزید آگے نہین جاسکتے ہیں ۔باقی کیا رہ گیا ہے ؟ یہ سارا کچھ پہلے ہی سے طے کیا جاچُکا ہے اور پہلے ہی سوچا جاچُکا ہے اور ہم ابھی تک اپنی نجات کو یقینی نہیں بنا سکے ہیں “۔ اس لحاظ سے جدیدیت ایک بار پھر سے عدمیت کو پسپا کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے ، لیکن جدیدیت دوسری طرف سے متناقض قابل ،تردید عمل سے طنزکا شکار ہے :۔
ایک دفعہ جو شخص کسی بھی چیز میں ایمان نہیں رکھتا ہے ، بُہت جلد ہی وہ کسی چیز میں ایمان رکھے گا”۔اسطرح سے جدیت مشرقی کثرت پر ستی کے لیے دروازہ کھولتی ہے ۔

کثرت پرستی یا مشرقی وحدت الوجود کانظریہ :۔
مشرقی وحدت الوجود کانظریہ اس بات کو درست طور پر سمجھتا ہے کہ اسباب کامنطقی عمل انسان کی سب سے بڑی روحانی ضروریات کو اطمیںان بخشنے کے لیے بے قوت ہے ۔ جنوب میں عقلیت پسند کہتا ہے کہ حقیقت کو جاننا ایک چیز کو دوسری چیز سے الگ کرنا اُس کو علیحدہ کرنا ،اور دوسری چیزوں کیساتھ اس کے فرق کے رشتے کو پہچاننا ہے ۔مشرق کے اندر حقیقت کو جاننا کسی شخص کی ضمیری حالت سے آگے جانا ہے ۔ زندگی کامقصدسب کو واحد طور پر جاننا اور سب کیساتھ واحد الذات ہونا ہے ۔ کثرت پر ستی ایک عقیدہ ہے کہ سارا کچھ ایک ہی چیز ہے ۔ایک شخص ،ایک گھوڑے ،ایک درخت یا ایک چٹان اور خُدا کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ کثرت پرستی کو مختصراً اس طرح سے بیان کیا جاسکتا ہے ۔ ایک شخص کی روح بالکل اُسی طرح سے ہے جیساکہ ایک شخس کی رُو ہے ۔ کائنات کے اندر کچھ روحانی وجود دوسری چیزوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ واحدانیت کی طرف بُہت سے راستے ہیں ۔کائنات کے ساتھ یکجا ہونا اپنے آپ کو خالی کرنا ہے ۔ اس واحدانیت کی حالت میں پہنچنا انسانی عِلم سے آگے جانا ہے ؛ اور اچھاءی اور برائی کے درمیان فرق سے آگے نکلنا ہے ۔ موت ایک بشر کے وجود کا اختتام ہے ۔ عدم موجود گی کو پانا کامل روحانی سکون تک پہنچنا ہے ۔وقت غیر حقیقی ہے ۔ تاریخ باربار رونما ہوتی ہے ۔
1960سے 1970کے عشروں میں یہ نظریہ مغرب کے اندر نہایت ہی مقبول ہوا جوکہ مشہور ومعروف ستاروں کی بدولت پھیلا تھا جیسا کہ Beatles ہے ۔ 1967ء میں Paul Mc Cartney اور John Lennon نے لکھا ،
“میں جل تھلیا ممیلیاہوں“جوکہ اس سطر کے ساتھ کھلتا تھا ۔“میں وہ ہوں جیسا کہ آپ وہ ہیں ،جیسا کہ آپ میں ہوں اور سب باہم ایک ہیں ۔
کھلے عام قتل ہونے والے Charles MansonنےBeatles کا کثرت پرستی کا دُنیاوی نقطہ نظر اپنا لیا ، اور 1969 ء
میں La Bianca کے قتل کے منظر پر ،اُس نے اپنے پر ستاروں کو خنک ساز لکڑی کے دروازے پر خون سے Helter
Skelterلکھنے کی ہدایت کی ،جوکہ Beatlesکے White Albumمیں سے ایک گانے کا عنوان ہے ۔ اچھاءی اور برائی کایکجا ہونا Mansonکے لیے ایک حقیقت بن گیا ۔ اُس نے یہ کہتے ہوئے اپنے اعمال کا دفاع کیا ، “اگر خُدا
ایک ہے ، تو اس میں کیا برائی ہے ؟“Dostoyevskyنے کہا ، “اگر کوئی خُدا نہیں ہے تو بھی کوئی چیز بھی جائز ہے ۔ اچھاءی اور برائی کے درمیان کوئی تضاڈ نہیں ہے ۔

نئے دور کافلسفہ

مشرقی کثرت پرستی نے نئے دور کی تحریک کو جنم دیا جو کہ ایک فلسفہ ہے جوکہ مشرقی وحدت الوجود کے نظریے کے عناصر کو عقلیت پسندی کیساتھ ملاتا ہے ( جن کو سمجھنا مشرق والوں کے لیے آسان ہے )۔عقلیت پسندی اور انسانیت چند کاص روحانی سوالوں کے جوابات عطا نہیں کرتی ہے ۔ نیا دور اِن سوالوں کے جوابات دیتا ہوا معلوم ہوتاہے ،نئے دور کافلسفہ بالکل مختلف ہے لیکن اس کو مختصراً اس طرھ سے بیان کیا جاسکتا ہے ۔ ہر ایک بشر خُدا ہے ۔ جیسے جیسے زیادہ لوگ اپنی برگذیدیت کو پہچاننے کے قریب آتے ہیں ۔کائنات یکجا ہے ،لیکن اس کو دوسطحوں پر بیان کیا گیا ہے :۔ ظاہری کائنات تک عام فہم ضمیر کیساتھ رساءی ممکن ہے ، اور پوشیدہ کائنات تک رساءی ایک مختلف شعور کے ذریعے سے ممکن ہے ۔نئے دور کے فلسفے کی مقصد یا منزل “کائناتی شعور تک پہنچنا ہے ۔ایک ایسی حالت جِس کے اندر وقت ، فضا اور حقیقت غائب ہوجاتے ہیںجسمانی
موت ایک بشر کے وجود کاخاتمہ نہیں ہے ، موت صف اور صرف روح کے ایک دور میں داخل ہونے کیساتھ زندگی کا ایک دوسرے روپ میں تبدیل ہونا ہے ۔ضمیری حالت کاتبدیل ہونا ،روح کا جسم سے باہر نکلنا ،اور ذہن کی ترتیب کائناتی شعور تک پہنچنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔نئے دور کے فلسفے کی مقبولیت مغربی تہذیب کے بکھرنے کی ایک نشاندہی ہے ۔ جِس طرح سے مشرق اور مغرب کے درمیان معلومات اور سیروسیاحت زیادہ نااستوار ہوتی جاتی ہے اور جس طرح سے مغرب کاانسانیت کو ظاہر کرنے کافلسفہ تباہ ہورہا ہے ،مشرقی فلسفہ بڑی تیزی کیساتھ اُس خلا کو بھرنے کے لیے وہاں پہنچ رہا ہے مشرقی وحدت الوجود کے نظریے کو عبوری ایک ایسے وقت میں حاصل ہورہی ہے جِس وقت مسیحیت اُن جگہوں پر کمزور ہے جہاں پر مشرق کو سہارا دینے کے لیے اُسے مضبوط ہونا چاہیے تھا ۔ مغربی خیالات کے اندر نئے دور کا فلسفہ اس وقت ایک ابھرتا ہو دُنیاوی نقطہ نظر ہے
البتہ نئے دور اور کثرت پرستی کی گفتگو یہاں پر ختم ہوتی ہے ،چونکہ ہم اِن دُنیاوی نظریات کاتفصیلی جائزہ باب نمبر 7کے اندر لیں گے ۔

حقیقت کیا ہے ؟۔
حقیقت کیا ہے ؟ ہم کس طرح سے کسی بھی چیز کے بالکل حقیقت ہونے کے بارے میں جان سکتے ہیں؟۔بائبل،خُدا کا کلام ،خُدا کے بارے میں غلطی سے پاک کی قیاس آرءیوں کو پیش کرتی ہے ،اِنسان اور کائنات کی فطت جس میں سے ایک پاءیدار دُنیاوی نقطہ نظر کی بنیاد پڑتی ہے ۔مسیحیت ہی ایک واحد اور مستقل مزاج دُنیاوی نقطہ نظر ہے جوکہ یہ جوابات مہیا کرتا ہے ۔
پہلی چند صدیوں کے کلیسیاء کے حمایتی مسیحی مسیحیت کے نظام کے بڑے پن کو ظاہر کرنے کے لیے کسی بھی دور کے فلسفے کامقابلہ کرنے سے خوفزدہ نہیں ہوتے تھے ۔ جدید انسان نے انجیل کی حکمت اور حقیقت میں سے مقابلہ کرنے کے لیے کوئی فلسفہ پیش نہیں کیا ہے ۔ پولوس رُسول کے الفاظ انجیل کاپرچار کرنا کچھ یوں ہے ۔“تصورات اور ہر ایک اونچی چیز کو جو خُدا کی پہچان کے خلاف سراُٹھاےء ہوئے ہے ڈھا دیتے ہیں اور ہر ایک خیال کو قید کرکے مسیح کافرمانبردار بنا دیتے ہیں “۔(دوسرا کرنتھیوں 10باب 5اور6آیت)
جب کبھی بھی کوئی مسیحی انجیل کاپرچار کرتا ہے ،تو وہ حقیقت کی اپنی سمجھ بوجھ پیش کرتا ہے ۔ایک خاص لحاظ سے وہ ساری حقیقت جو ہمیں جاننے کی ضرورت ہے وہ ایک مرتبہ جب ہم نئے سِرے سے پیدا ہوجاتے ہیں ہمارے اندر موجود ہوتی ہے ۔ پاک روح ہمارے اندر رہتا ہے اور سب چیزیں ہمیں سکھاتا ہے ۔“بلکہ جِس طرح وہ مسح جو اُسکی طرف سے کیا گیا تمہیں سب باتیں سکھاتا ہے اور سچا ہے اور جھوٹا نہیں اور جِس طرح اُس نے تمہیں سکھایا اُسی طرح تم اُس میں قائم رہتے ہو “۔ ( 1یوحنا 2باب27آیت ) خُدا کاکلام جو صحیفوں کے اندر لکھا ہوا ہے وہ بھی ہمارے اندر ہی رہتا ہے ۔پاک روھ کے وسیلے سے لفظ یسوع مسیح ہمارے اندر رہتا ہے ۔ایک نئے سِرے سے پیدا ہونے والی روح کے لیے خُدا کے کلام کو اپنے اندر سمونا ناممکن ہے ۔صرف اور صرف ایک نئے سِرے سے پیدا ہونے والا شخص ہی کلام کے بھیدوں کی گہراءی تک پہنچنا شروع کرسکتا ہے ۔ بھیدوں کو اُس کے ذہن میں ایک روشن حقیقت کی طرح ظاہر کیا جاتا ہے ، لیکن روح کی مدد سے ایسا ہوتا ہے ۔اسطرح سے ایک روحانی شخص ،ظاہری طور پر حقیقت کے بارے میں سوچنے کی بجائے ،باطنی طور پر ایمان رکھتا اورحقیقت کو جانتا ہے ۔ منطقیت اور سبب یقینا خُدا کے لکھے ہوئے کلام کے اندر موجود ہے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ لکھا ہوا کلام روح کے مطابق ہو ۔کلام کامسح کیا ہوا پرچار ایک روحانی شخص کے دِل کی اتھاہ گہراءیوں تک اُس کے ساتھ مخاطب ہوتا ہے ۔
خُدا کے کلام کامکمل طور پر سچا پر چار ایک نبوت ہے ۔ کیونکہ پاک روح ہمارے ذریعے سے مخاطب ہوتا ہے ، بے شک قدرتی ذہن اُلجھا ہوا ہے اور ہمیں ہوسکتا ہے “اب آیے میں دُھندلا سادکھاءی دیتا ہے “۔ ( 1کرنتھیوں 13
باب12آیت ) کلام کو سُننے والے ہوسکتا ہے کہ روھ کے وسیلے سے اُن الفاظ کو سمجھتے ہوں جو اُن کے سامنے بیان کیے جاتے ہیں ۔یہی کچھ ہی اصل نبوت ہے ‘ پاک روح کے وسیلے سے مسح کیا ہوا خُدا کاکلام جو کہ اُن کے دِلوں میں ظاہر کیا جاتا ہے ج،ن کو خدا بولنے کے لیے چُنتا ہے ۔ یہ اُمید کی جاتی ہے کہ بائبل کی وہ حقیقتیں جو باقی کی اس کتاب کے اندر پیش کی گیں ہیں وہ اُس حقیقت کیساتھ اتفاق کریں گے جو کہ پہلے ہی سے پاک روح کی بدولت آپ کے اندر موجود ہے ۔

ایڈ یٹر کا نوٹ :۔

میں نے Ron Auvil کی تحریروں کاستعمال کیا ہے جِن کامواد شامل کیا گیا ہے یا اِن پیروں کی شکل میں لیا گیا ہے :۔ “دُنیاوی نقطہ نظر کیا ہے “۔ اور تاریخ کی اصل نوعیت “میں نے James Sire, کی کتاب ،“کائنات
اگلا دروازہ ہے “۔ کو اہم دُنیاوی نظریات کو مختصراً پیش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے ۔

Your comments are welcome

Use Textile help to style your comments

Suggested products